بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
حقیقی محبت
ام محسن حسن،ملتان
اس نے دروازے کو کھول کر اندر جھانکا اور سلام کرتے ہی حال پوچھا۔۔۔!
جواب میں اللہ کا شکر کہا گیا۔
اور وہ سمجھ گئ کہ میرے سلام اور میری دعا کا کسی کو انتظار نہیں تھا
وہ واپس ہو لی۔۔کسی نے نہیں کہا کہ اندر آئیں۔۔بیٹھیں۔۔کیسی گزر رہی ہے زندگی؟
کیوں کہ ایسے پوچھنے والا ہر کسی سے محبت کرنے والے کی مخلوق میں اتنا حوصلہ کہاں؟
اس کا قصور غربت تھی، غربت ایسی کہ لاکھوں میں کھیلنے والی کے سر سے جب سایہ اٹھا تو بیٹے نے ساری جائیداد پہ عیش کیا۔۔ماں کے لاکھ روکنے پہ بھی اس نے کوئی اثر نہیں لیا۔جب پیسہ ختم ہوا گھر کی چھت بیچنے پہ آیا تو ماں نے لوگوں کو اکھٹا کر کے اسے روکنے کی کوشش کی جس پہ وہ گھر چھوڑ کے ناجانے کہاں چلا گیا۔
اس ماں کے کتنے دکھ تھے۔۔ کوئی سننے والا نہیں تھا اس پاک ذات کے سوا۔
اس کی غربت نے پھر اس سے ہر رشتہ چھین لیا حتی کہ انسانیت کا بھی۔۔وہ کھانے کے ٹائم پہ لوگوں کے گھروں میں جانے لگی کہ پوچھنے پر خاموشی پہ کھانا مل جاتا۔۔
لیکن کب تک؟
حضرت انسان کا دل کتنے دن کسی کو کھانے کے چند لقمے دے سکتا۔جب لوگ تنگ ہونے لگے تو دور جانے لگی کہ کبھی کہیں، کبھی کہیں۔۔۔
وہ لوگ جو محبتوں میں گوندھے تھے وہ ہی لوگ بولنا پسند نہیں کرتے۔ وہ ہی سلام کے جواب پہ منہ دوسری طرف کر کے جواب دیتے ہیں کہ آگے کوئی بات نہ پوچھ لے۔
کوئی محبت سچی نہیں سوائے رب تعالیٰ کی محبت کے۔
وہ ہر ایک کو برابر عطا کر رہا ہے ہر کسی کی کوشش کے مطابق۔ سب کو برابر اپنے در پہ بلاتا ہے ۔۔ اب یہ فانی جسموں کی مرضی کہ اس کی محبت پہ لبیک کہتے ہیں یا۔۔۔۔
وہ ہی حقیقی محبوب ہے، اس کے سوا اگر کسی کو ہمارا درد تھا تو خاتم النبین تھے وہ جو راتوں کو اٹھ کے اپنی امت کے لیے روتے۔ جن کی ہر بات پہ اللہ سے دعا کہ: "میرے اللہ میری امت"۔
اس دنیا میں جہاں ابھی سے حشر برپا ہے کہ نفسا نفسی کا عالم ہے۔ آقا دو جہاں کی محبت اور مالک کل کی محبت ہی حقیقی ہے۔

0 Comments