بسم اللہ الرحمن الرحیم
جھاد بالقلم
خدیجہ شکیل
جھاد نام ہے مسلسل اور ان تھک کوشش کا جو تھکے بغیر مسلسل کی جائے۔ عموماً ہم لفظ جہاد کو جنگ و جدل کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں مگر جہاد مسلسل کوشش اور ان تھک کوشش کو کہتے ہیں۔ مسلسل اور ان تھک کوشش کا مطلب ہے رکے بغیر کی جانے والی جدوجہد یہ وہ کوشش نہیں جسے ناکامی کا خوف روک سکے۔ کسی ناکامی، چوٹ کا خوف بھی جس کوشش کو نہ روک سکے بس رکے بغیر جدوجہد جاری رکھنی ہے بغیر انجام کی پرواہ کئے۔
کوشش کسی ایک ہی خاص میدان میں تو نہیں کی جاتی بل کہ کوشش اور جدوجہد تو ہم ہر اس جگہ کرسکتے ہیں جہاں ہم کچھ کرکے دکھانے کا ارادہ رکھتے ہوں جہاں کسی منزل پر پہنچ جانے کا عظیم مقصد پوشیدہ ہو۔
اسلام کی سربلندی کی خاطر کسی بھی طرح سے مسلسل کوشش کا نام جھاد ہے چاہے پھر وہ کوشش میدان جنگ میں کی جائے یا میدان نفس میں ہو، چاہے پھر وہ جھاد کسی ایک شخص کے ساتھ ہو یا پھر سارے معاشرے کے ساتھ۔
اسی طرح جہاد بالقلم سے مراد ہے کہ قلم کے ذریعہ کسی بامقصد کام کی تکمیل کے لیے مسلسل اور نہ رکنے والی کوشش کی جائے۔
تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ قلم کے ذریعہ کیا کوشش کی جاسکتی ہے؟
سوچا جائے تو قلم کے ذریعہ دین اسلام کی سربلندی، اپنے ملک و قوم کی ترقی، اپنے معاشرے کی فلاح و بہبود اور معاشرے میں مثبت سوچ کو فروغ دینے جیسے بامقصد کام کیے جاسکتے ہیں۔ حق کی سربلندی کی خاطر حق گوئی کا نام جہاد بالقلم ہے۔
یاد رہے ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اور ہمارا معاشرہ جس اخلاقی پستی کا شکار ہے یہ ہمیں حق گوئی سے روک رہا ہے تاریخ گواہ ہے کہ حق بولنے والوں کے ساتھ اِن دنیا والوں نے کوئی اچھا سلوک نہیں کیا۔
مگر ہمیں انجام کی پرواہ کئے بغیر اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام دینا ہے۔ اپنے مقصد حیات کا تعین کرکے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہم جتنی کوشش کرسکتے ہیں ہمیں کرنی چاہیے۔
چاہے پھر وہ کوشش اتنی محدود ہی کیوں نہ ہو کہ بس ہماری اپنی زندگی سنور جائے ہمیں اپنے اس دنیا میں لائے جانے کے مقصد کا علم ہو جائے اور ہم اپنے مقصد کے حصول کے لیے تھوڑی سی بھی کوشش کرلیں۔
اگر ہم انفرادی طور پر اتنا بھی کرسکے تو ان شاءاللہ ہم اپنا فرض ادا کرنے میں تھوڑا تو کامیاب ہو ہی جائیں گے اور اپنا مقصد حاصل کر کے ہم خود میں بہتری لاکر انفرادی طور پر بہتر انسان بن جائیں تو یہ بھی بہت ہوگا۔ کیوں کہ
“قطرہ قطرہ ہی سمندر بنتا ہے”
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بات جو بہت ضروری ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں اچھے کام کرنے اور اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ہر طرح کے خوف اوہ غم سے آزاد ہو اپنی ناکامیوں پر رونے اور خود کو کم تر سمجھنے کے بجائے سب کچھ اپنے رب پر چھوڑ دیا جائے اپنے رب پر کامل یقین ہو کہ جس نے مقصد عطا کیا ہے وہ مدد بھی کرے گا۔
اپنے رب کے ساتھ ساتھ اپنی ذات پر بھی مکمل بھروسہ رکھیں کیوں کہ اپنی ذات پر کیا جانے والا بھروسہ اور اعتماد آپ کے اندر سے خوف کا خاتمہ کردے گا اور اسی طرح جب ہم اپنے رب پر یقین کامل رکھتے ہیں تو ہمارا رب ہمیں ہر حال میں تھام لے گا، ہمیں ہر مشکل میں سنبھال لیا جائے گا اور ہر اندھیرے میں روشنی کی کرن دکھائی جائے گی یہ یقین کامل انسان کو ہر طرح کے غم سے آزاد کر دیتا ہے۔
اللہ ہمیں یقین کامل کی دولت عطا کر کے اپنے مقصد کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے قلم کا حق ادا کرنے اور قلم کے ذریعہ ہمیں جھاد کرنے کا سلیقہ عطا فرمائے آمین۔
ختم شد۔


0 Comments