بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
توکل
انیلہ کنول
توکل ایسی ذات پہ یقین کو کہتے ہیں جو نظر تو نہیں آتی مگر جدھر نگاہ دوڑائیں ہر چیز اس ذات کی موجودگی کا اعلان کرتی ہے۔
وہ ذات جس کے حکم کے بغیر انسان تو دور کی بات پتا بھی نہیں ہل سکتا۔
وہ ذات جس نے انسان کو کان ، آنکھ، گوشت کا لوتھڑا جو بولتی ہے ہاں جسے ہم زبان کہتے ہیں عطا فرمائی
انسان کا بھی حق بنتا ہے کہ ہر موقع، ہر لمحہ، ہر سانس پہ اس پر توکل رکھے
ایسا توکل جو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھر کی تمام چیزیں حضور ﷺ کی خدمت میں دینے کے بعد فرمایا کہ میرے لیے اللہ اور اس کے رسولﷺ کافی ہیں۔
ایسا توکل جو حضور ﷺ نے بھوک اور ہر تکلیف کے لمحے اپنے رب پہ کیا۔
ایسا توکل جو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گرم ریت پہ لیٹتے وقت اپنے رب پہ کِیا ۔
توکل والے بڑی بڑی تکلیفوں کا سامنا صبر اور حوصلے سے کرتے ہیں
توکل والے تکلیفوں سے گھبراتے نہیں۔
رب اپنے بندوں کو آزمائش میں ڈالتا ہے آزمائشوں میں ہی تو انسان کے توکل کا امتحان ہوتا ہے کہ اس کی رب سے محبت کتنی سچی ہے یا پھر صرف لفظی محبت کا دعویٰ کرتا ہے ۔
جب ہر طرف لوگ گرانے کی کوشش میں ہوں اس وقت رب پہ توکل کہ میرا رب مجھے سنبھال لے گا ۔
جب بھوک ہو تو اس وقت رب تعالیٰ پہ توکل کہ میرا مالک مجھے کھلائے گا۔
جب چاروں طرف سے تکلیفوں نے گھیر رکھا ہو تو اس وقت توکل کہ میرا رب ہی مجھے اس سے نکالے گا
توکل والے لوگوں کے سامنے چیختے چلاتے نہیں ہیں وہ تو ہر لمحہ پرسکون رہتے ہیں رب پہ یقین رکھتے ہیں ۔

0 Comments