بنتِ فلسطین بقلم عمیر جمیل

 بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ 

بنت فلسطین

از قلم عمیر جمیل 

ایک وقت تھا جب امت مسلمہ کے جانباز میدانوں، سرحدوں پر اپنی جانیں نچھاور کر کے سلطنت اسلامیہ کی اور اس کے اندر رہنے والوں کی حفاظت کا فریضہ سر انجام دیتے تھے۔

بنت مسلم جیسے چاہتی تھیں اپنے گھر کے اندر رہ کر چار دیواری کی ملکہ کا روپ اختیار کر کے رکھتی تھیں اسے اپنی عزت مال اور اولاد کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی ۔خاص کر یہ تو فکر تھی ہی نہیں کہ کبھی کسی انسان کو یا کافر کو اتنی جرات ہوگی کہ وہ امت مسلمہ کی بیٹیوں کی عزتوں سے کھلواڑ کریں اور انہیں بے آبرو کریں۔کیوں کہ امت مسلمہ کے جانباز حکمران اور سلاطین چاہے جیسے بھی ہوں مگر غیرت و حمیت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی تھی۔دنیا کا کوئی بھی کنارا ہو ہر جگہ بنت حوا کی عصمت و حرمت محفوظ تھی۔

بنت مسلم کو اپنے مسلم بھائیوں پر ناز تھا کہ کچھ بھی ہو اپنے خون کے ذریعے ہمارے بھائی ہماری ناموس کی حفاظت کریں گے اور اگر کبھی کسی کافر بدبخت نے نگاہ اٹھانے کی کوشش کی تو اس کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا ۔کسی نے گندی زبان استعمال کرنے کی کوشش کی تو اس کو گدی سے کھینچ دیا جائے گا۔

کسی نے انگلی اٹھانے کی کوشش کی تو اس کا وجود ختم کر دیا جائے گا۔

غرض امت مسلمہ کے جانباز اپنے تن، من، دھن کے ذریعے ہماری عزتوں کی پاسبانی کریں گے۔

مگر پھر حالات نے پلٹا کھایا ۔مسلم بھائیوں کی غیرت و حمیت نچڑتی چلی گئ۔ یورپ کی حسیناؤں کے تصور نے امت مسلمہ کے نوجوانوں کی جرات و بہادری کو مفلوج کردیا۔

آذادی نسواں کے نام پر بنت حوا کے سر سے مقدس آنچل کھسکتا چلا گیا۔

چار دیواری کی گھٹن سے تنگ آکر بنت مسلم اغیار کی طرح عیش پرستی کو ڈھونڈنے لگی۔

قرآن کی تلاوت کے شعار کو ترک کر کے میوزک میں دل لگنے لگا۔

پھر ساری امت مفلوج ہوگئ۔ اغیار کی جراتیں حد سے بڑھ گئیں۔

کفار امت مسلمہ کے ملکوں ،گھروں طور و اطوار اور رسم و روایات میں دندنانے لگے۔

لباس زبان تک غلام بنا دیا۔

پھر نہ عزتیں محفوظ رہیں نہ عصمتیں۔

نہ مال محفوظ رہا نہ سکون 

نہ گھر محفوظ رہے نہ سرحدیں

!لیکن

اس تمام صورتحال میں بھی چند سر پھرے اور اسلام کے وفاداروں کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو ابھی بھی منہج نبوت پر کاربند ہے۔شریعت کو اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے۔

بنت مسلم کی حفاظت میں سرگرداں رہتے ہیں۔

اور امت مسلمہ کی بیٹیاں بھی ہیں جنہوں نے جب دیکھا کہ ہمارے بھائی ہاتھوں میں چوڑیاں پہن کر میٹھی نیند سو رہے ہیں۔

تو پھر امت کا فخر اسلام کی شان محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی جانباز بیٹیاں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی راج دلاریاں خولہ سمیہ رضی اللہ عنھما کی بہنیں۔ ہاتھوں سے چوڑیاں نکال کر مقدس اسلحہ سجا کر میدانوں میں نکل آئیں۔

کہ انہیں پتا ہے کہ اب حرمتوں کی پاسداری خود ہی کرنی ہے ۔

عزتوں کی پاسبانی اپنے اسلحہ سے کرنی ہے ۔

اپنے دوپٹے کو مقدس اپنے ہی تیر و تلوار سے بنانا ہے ۔

یہ بھی القدس کی بیٹیاں ہیں ۔

ان کے سہاگن بننے کا خواب ہیں ۔یہ بھی چاہتی ہیں کہ ہمارے ہاتھوں پر حنا رنگ لائے ۔

اپنی کوکھ سے معصوم قلقاریاں سننے کی آرزو مند یہ بھی ہیں۔

مگر ہر چیز قربان کر کے اپنی خواہشات کو سولی پر چڑھا کر فی امان اللہ نکل آئی ہیں ۔

اپنی آرزوؤں کا خون کا خون کر کے ہاتھوں میں بندوقیں اٹھا کر وقت کے فرعونوں سے ٹکرانے نکل آئی ہیں ۔

القدس کی ابابیلیں اپنے کومل ہاتھوں میں کنکریاں اٹھا کر وقت کی سپر پاور سے ٹکرا کر مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے ہمہ تن تیار ہو گئی ہیں ۔

ان شاءاللہ حالات بدل رہے ہیں ۔امت جاگ رہی ہے ۔ خلافت کی ہوائیں چل پڑی ہیں ۔

ان شاءاللہ وہ دن دور نہیں جب ہر جگہ سے اسلام کی صدائیں بلند ہونگی ان شاءاللہ۔

بنتِ فلسطین بقلم عمیر جمیل

Post a Comment

0 Comments