بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
فلسطین
افصاہ بنت جمیل
نام لیتے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
کیا کہیں کہ لفظ وہ تاثیر بیان کر ہی نہیں سکتے جو تاثیر فلسطین کے معصوم بچوں کی آہیں کر رہی ہیں۔
ہم لوگ سکون سے اس لیے بیٹھے ہیں کیونکہ ہمیں اپنی زندگی حفاظت میں لگ رہی ہے۔
مگر وہ؟ وہ تو ہر گھنٹہ، ہر منٹ، ہر سیکنڈ موت کو اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔
کچھ کو مٹی میں دفنا رہے ہیں۔
اور کچھ کو ملبے تلے سے نکال رہے ہیں۔
کچھ کی آنکھوں کو کھولنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
تو کچھ کی کھلی آنکھوں کو ہاتھوں سے بند کر رہے ہیں۔
کچھ یتیموں کی ماؤں کو تلاش کر رہے ہیں۔
تو کچھ ماؤں کے لاڈلوں کو منوں مٹی تلے دفنا رہے ہیں۔
کچھ بہنیں اپنے محافظوں کی شہادت دیکھ رہی ہیں۔
تو کچھ بھائی اپنی بہنوں کے جنازے پڑھ رہے ہیں۔
کیا کیا بتاؤں؟
اور وہ کیا ہے جس سے آپ لوگ واقف نہیں ہوئے اب تک؟
کبھی سوچا ہے آپ نے کہ ہم لوگ ان کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟
وہ تو جہادی ہیں، جہاد کر رہے ہیں۔
انہیں کیا چاہیے ہوگا وہ تو شہادت کے مرتبے پر فائز ہو رہے ہیں۔
مگر ہم؟
ہم لوگ کیا کر رہے ہیں؟
کیا ہم لوگوں پر جہاد فرض نہیں؟
کیا ہم مسلمان نہیں جو کہ جسدِ واحد کی طرح ہوتے ہیں؟
رب العالمین کا حکم ہے۔
:ترجمہ
تو (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ) آپ ان کفارّ کا کہنا نہ مانیے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے ساتھ جہاد کریں اس (قرآن) کے ذریعے سے بڑا جہاد۔
(سورۃ الفرقان :۵۲)
!رب نے تو واضح جہاد کرنے کا کہا ہے
کیا ہم اتنی طاقت بھی نہیں رکھتے کہ حق کے لیے آواز اٹھا سکیں؟
کیا بھول گئے ہیں مسلمانوں کی تاریخ؟
کیا بھول گئے ہیں سارے غزوات؟
کبھی سوچا نہیں ہم لوگوں نے کہ نبی ﷺ کی زندگی کا تو ایک ایک کام ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
اگر نبی کریمﷺ نے جہاد کیے تھے تو یقیناً ہم لوگوں کے لیے سبق بنانے کے لیے، کہ جب بھی مسلمان کو جہاد کرنا پڑے تو وہ جانتے ہوں کہ ان کے نبیﷺ انہیں جہاد کے متعلق کیا نصیحت کر کے گئے ہیں۔
کیا بھول گئے ہیں غزوہ بدر؟
جس میں فقط تین سو تیرہ جہادیوں نے مل کو اسلام کو فتح یاب کیا تھا۔
پتا ہے کیسے؟
کیونکہ ان کے ایمان پختہ تھے، ان کے ارادے مضبوط تھے، ان کی دعائیں رب سے منسلک تھیں۔ ان کی آوازیں نعرۂ اللہ اکبر تھیں۔
اور ہم؟
ہم کریں محاسبہ اپنے آپ کا؟
اور پوچھیں خود سے کہ آج کے مسلمان مضبوط کیوں نہیں ہیں؟
ہم بھی کر سکتے ہیں۔
زیادہ نا سہی تو جتنے کی ہمت ہے اتنا تو کر ہی سکتے ہیں۔
ہم ان کی آواز بن سکتے ہیں جو کہ چپ کروا دی گئی ہے۔
ہم لوگ تلوار سے جہاد نہیں کر سکتے تو قلم سے کریں، زبان سے کریں، دل سے کریں، مگر کچھ تو کریں۔
ہم لوگ اسرائیل کو اپنے اندر تک داخل کر چکے ہیں کیونکہ ہم ان کی بنائی ہوئی اشیاء استعمال کرتے ہیں۔ تو اگر اسرائیل کو فلسطین سے نکالنا ہے تو اپنے، اپنے گھر سے، اپنے شہر سے، اپنے ملک سے اسرائیل کو نکالیں۔
آپ تو سوچتے ہوں گے نا کہ میرے ایک کے کرنے سے کیا ہوگا؟
یقین کریں ہو گا، ایک ایک کے ہر ہر قدم پر کچھ نا کچھ تو ہوگا۔
کیونکہ رب العالمین کوئی بھی کوشش رائیگاں نہیں جانے دیتا۔
!آپ دے سکتے ہیں فلسطین کا ساتھ
چلیں اپنی آوازوں کو ایک آواز بنائیں اور اتنا بلند کر دیں کہ تمام اسلامی ممالک ان آوازوں سے گونجیں اور ہوش میں آئیں۔
اٹھیں ہم مسلمان اتحاد کی طاقت دکھائیں۔
کہاں ہے؟
یوتھ پاور
سٹوڈینٹ پاور
سوشل میڈیا پاور
کہاں ہے عوام کی وہ طاقت جو حکومت کو مجبور کر سکے کہ وہ فلسطین کے لیے قدم اٹھائیں، اپنی ایٹمی طاقت کا استعمال کرے اور یہ دکھا دے کہ مسلمان جسدِ واحد ہیں۔
!یاد رہے حکومت ہم سے ہے ہم حکومت سے نہیں
اگر آج ایک آواز اٹھے گی تو اس آواز کی سرگوشی کسی اور کے دل پر بھی ضرور اثر انداز ہو گی اور وہ بھی آواز اٹھانے کے لیے تیار ہو جائے گا۔
اس لیے اگر آج پاکستان یہ کہہ دے کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہیں، جو کوئی بھی فلسطین یا مسجد اقصیٰ کو نقصان پہنچانے کی سوچے گا بھی، اسے نقشے سے مٹا دیں گے۔
تو اس کا اثر دوسرے مسلم ممالک پر بھی ہو گا اور وہ بھی فلسطین کی آواز بن جائیں گے۔
آخر پر یہ کہنا چاہوں گی کہ ظلم پر خاموش کیوں؟ آواز اٹھا جہاد کر۔
بھائی ہے تیرے درد میں، کچھ تو امداد کر
مٹا دے رب ظلمت کو، ہاتھ اٹھا دعا تو کر
جو برسوں سے ہیں قید میں، ان کو آزاد کر
وہ سر زمین ہے انبیاء کی، اس پہ کچھ مہاد کر
کچھ ایسا تو اب قدم اٹھا، فلسطین کو آباد کر

0 Comments