بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
کفار کی گستاخیاں اور ہمارا کردار
بقلم: ثناء فاطمہ وڑائچ
نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس اس قدر بلند ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے پیارے محبوب کے لیے دنیا جہان بنا دیے۔ پھر ان کی خوب صورتی کو بڑھانے کے لیے، جہالت کے گھنے بادلوں کو ہٹانے کے لیے، لوگوں کو صراط مستقیم دکھانے کی خاطر، بھٹکے ہوئے لوگوں کی راہنمائی کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی بنا کر بھیجا گیا۔ جس امت کی طرف بھیجا گیا اس کو تمام امتوں سے بہترین امت قرار دیا گیا۔ جو کتاب نازل ہوئی آپ صلّی اللہ علیہ وسلم پر وہ تمام کتابوں کی سردار ٹھہری۔
اور پھر حضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے لیے رحمت اللعالمین بنا دیا گیا۔ راہ نما و راہبر بنا دیا گیا۔ قیامت تک کے لیے آپ کی ذاتِ بابرکت کو رحمت کا فلاح کا ذریعہ بنا دیا۔
اللہ تعالی اور آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے ہم پر بےشمار احسانات ہیں۔ جن کا ہم چاہ کر بھی شکر ادا نہیں کر سکتے۔ یہ احسان کم تو نہیں کہ حضرت محمد صلّی اللہ علیہ وسلم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اے میرے رب میری امت کی ان کے گناہوں کی پاداش میں شکل تبدیل کر دینے کی سزا مت دینا۔
ہر نبی کی اک دعا قبول ہوتی رہی آپ نے وہ دعا بھی اپنی امت کے لیے رکھ چھوڑی۔ یا پھر یہ احسان کم ہو گا کہ روز محشر آپ شافع محشر بن کر آئیں۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہماری شفاعت کے لیے آئیں گے کہ جس روز ماں باپ کو اولاد کی اولاد کو والدین کی فکر نہیں ہو گی۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہو گی۔ ہر طرف یاربی نفسی کی صدا ہو گی۔ ان ہی صداؤں میں اک صدا آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی ہو گی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم عالم محشر میں تشریف لائیں گے آپ کے لبوں پہ صرف یہ الفاظ ہوں گے
!یاربی امتی، یاربی امتی
اے میرے رب میری امت اے میرے رب میری امت۔
قربان جاؤں میں اپنے سوہنے نبی کی اس بے لوث محبت پر۔
آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کے باعث ہی آج امت محمدیہ تمام پچھلی امتوں سے افضل ہے۔ پچھلی امتیں جب انبیاء کو ایذا دیتیں حکم الٰہی کا انکار کرتیں تو ان کو اللہ کا عذاب آ لیتا، شکلیں تبدیل ہو جاتیں۔ ہم آج اس دور میں ہیں کہ سب سے پہلے ہم نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمیں پہنچائے گئے اللہ تعالیٰ احکام سے منکر ہو کر گستاخی کر رہے ہیں۔ نماز، قرآن، روزہ، زکوة، حقوق العباد، پردہ، چوری، جھوٹ، زنا، غیبت جیسی عادتیں اپنا کر ہم گستاخی ہی کرتے ہیں۔ ہر طرف برائی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ غفلت کی زندگی گزر رہی ہے۔ لیکن آپ کی ذات اقدس کی وجہ سے ہماری شکلیں تبدیل نہیں ہوتیں۔ ہم زمین میں نہیں دھنسائے جاتے۔ ہم پر خون، ٹڈیوں کا عذاب نہیں آتا، کیوں کہ ہمارے نبی کی دعا ہمارے ساتھ ہے۔
مگر افسوس ہم نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے ان احسانات کا زرہ برابر بھی قرض نہیں چکا پا رہے۔ کبھی کوئی قادیانی اٹھتا اور نبی ہونے کا دعویٰ کر دیتا۔ کبھی خاکے بنائے جاتے غرض طرح طرح سے گستاخی کی جاتی۔ ہالینڈ فرانس اسرائیل اور اب انڈیا کی طرف سے آپ کی شان میں گستاخی کی گئی۔
کبھی یہ سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کیوں یکے بعد دیگرے گستاخیاں کی جاتی ہیں۔
اس کا جواب ہے ہمارا جذبہ جہاد ترک کر دینا عیش و عشرت میں ڈوب کر ہم یہ بھول چکے کہ گستاخ رسول کی سزا صرف سر تن سے جدا ہے۔
ہم نے گستاخی ہونے پر کبھی بھی منہ توڑ جواب نہیں دیا جس سے کفار کو مزید شہ ملتی رہتی ہے۔ ہم چار دن اٹھتے ہیں احتجاج کرتے ہیں آواز اٹھاتے ہیں اور پھر خاموش ہو جاتے ہیں۔ کیوں کہ ہماری آوازیں برسرِ اقتدار طبقے تک پہنچ ہی نہیں پاتیں۔ وقتی طور پہ کہہ دیا جاتا ہے کہ فرانس ہالینڈ سے بائیکاٹ کریں گے لیکن ایسا ہوتا نہیں کیونکہ اس اقتداری اندھے گونگے بہرے طبقوں کو اپنی شان و شوکت عزیز ہے اپنی معیشت عزیز ہے۔ ان ممالک سے حاصل ہونے والا پیسہ عزیز ہے۔
افسوس کہ ہم میں سے ہر کوئی گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتا ہے کہ مجھے میرے نبی سے محبت ہے لیکن اس محبت کا عملی ثبوت دینے میں ناکام ہیں۔
ہم اگر کفار کی گستاخیوں پر ان کا قتل نہیں کر سکتے تو یہ تو کر سکتے ہیں کہ انکا بائیکاٹ کر سکیں۔ ان ممالک کی بنائی گی مصنوعات کا استعمال ترک کر دیں۔
عوام اور علماء کرام فرقے چھوڑ کر ایک ہو کر حکمرانوں پر زور ڈالیں ان ممالک سے قطع تعلقی کرنے کے لیے۔
مگر افسوس صد افسوس کہ ہمارے اکثر نام ور علماء انڈیا میں کی جانے والی گستاخی پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ ہر مسلمان پر جہاد فرض ہے۔ جہاد کی تلقین کرنا، برائی اور ظلم کے خلاف جنگ کرنے کی تلقین کرنا، ناموسِ رسالت پر قربان ہونے کا درس دینا علماء کا فرض ہے۔
حضور صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں بن سکتا جب تک کہ میں تمہیں تمہارے باپ بیٹے اور عزیز لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔
یہ وقتِ جہاد ہے، لازم ہوچکا ہے ان کفار کو بتانا کہ ہمیں اپنے نبی سے اس قدر محبت ہے، اس قدر عزیز ہیں کہ ہم ان کی ناموس کی خاطر جان لے بھی سکتے ہیں دے بھی سکتے ہیں۔
ہمیں فرمان مصطفیٰ کے مطابق ہر چیز پر آپ کی ذات کو ترجیح دینی ہو گی۔ اب بات احتجاج اور تقاریر تک نہیں رہنے دینی ہو گی۔ اس وقت تک آواز اٹھاتے رہنا ہو گا جب تک ان ممالک سے مکمل بائیکاٹ نہیں کر دیا جاتا۔
ہمیں اپنے اندر سوئی ہوئی غیرتِ مسلمہ کو جگانا ہو گا۔ ہمیں اپنے اندر معاذ و معوذ، غازی علم دین شہید، عامر چیمہ شہید اور غازی خالد جیسی صفات پیدا کرنی ہوں گی۔ ہمیں کفار کی گستاخیوں کا منہ توڑ جواب دینا ہو گا تا کہ ہمیں روزِ محشر محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وسلم کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔ کم از کم ہم یہ تو کہہ سکیں کہ یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ کے گستاخوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی جہاد میں حصہ ڈالا تھا۔ خالی ہاتھ ہونے سے بہتر ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کچھ تو ہو جو ہم اپنے پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم کو دکھا سکیں۔
اس وقت یہ مت سوچیں کہ علماء خاموش ہیں حکمران خاموش ہیں تو ہمارے اٹھنے سے کیا ہو گا۔ ہماری آواز اٹھانے سے کیا ہو گا۔ ہم اٹھیں گے نبی کی ناموس کے لیے تو اللہ بھی ہمارا مددگار ہو گا۔ جیسے اس نے اپنے 313 بندوں کی کفار کے لشکر کے سامنے مدد کی تھی ویسے ہی وہ پاک ذات اب بھی اپنے محبوب کے لیے ہمارا ساتھ دے گی۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں خود فرماتے ہیں
(اِنَ٘ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ (القرآن
بےشک آپ ﷺ کا دشمن ہی بے نام و نشان ہو جانے والا ہے۔القرآن
یہ میرا، آپ کا یا کسی عام انسان کا نہیں بلکہ رب باری تعالٰی کا فیصلہ ہے کہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن بے نام و نشان ہو گا اور ان شاء اللہ ہو گا ایسا۔
آئیں مل کر ان کفار ممالک کی بنائی ہوئی چیزوں کا استعمال ترک کریں یہ سوچ کر کہ یہ چیزیں ان ممالک سے خریدی گئی ہیں جنہوں نے ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کر کے ہماری دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا ہے۔یقین جانیے ان چیزوں کا استعمال ترک کر کے ہم مریں گے نہیں۔
اٹھیں جہاد کی خاطر اپنے نبی کی ناموس کی خاطر اب کی بار ایسا منہ توڑ جواب دیں کہ پھر کبھی بھی کوئی بھی کافر ایسی گستاخی کرنے کا دور، سوچنے کی بھی ہمت نہ کرے۔ ان گائے کے پجاریوں کو گائے کا پیشاب پینے والوں کو بتلائیں کہ اب ہم خاموش نہیں رہیں گے ان کتوں کو جہنم واصل کر کے ہی رکیں گی۔
بتا دیں ساری دنیا کو کہ ہمارے نبی کا ذکر ہمیشہ بلند رہے گا۔
با خدا اگر اب بھی ہم نہیں اٹھے اگر اب بھی ہم نے کفار کو منہ توڑ جواب نہیں دیا اگر اب بھی ہم کچھ دن نعرے اور تقاریر کر کے خاموش ہو گئے تو تباہی و بربادی ہمارا مقدر ہو گی۔


0 Comments