بسم اللہ الرحمن الرحیم
سحرش ظفر۔۔اسلام آباد
گانے اسٹیٹس پر لگانے والے متوجہ ہوں۔
گانے سننا حرام ہے لیکن ہماری عقلوں پر شیطان اس قدر حاوی ہوچکا ہے کہ ہمیں یہ گناہ بہت معمولی نظر آتا ہے۔
جب ہم کوئی گناہ کا کام کرتے ہیں تو اس کا گناہ صرف ہمیں ہوتا ہے مگر جس کو ہم گناہ کے کام پر لگانے یا سننے کا سبب بن جاتے ہیں تو اپنے گناہ کے بوجھ کے ساتھ ساتھ ہم دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی اپنے کندھے پر سوار کر لیتے ہیں۔
اسی طرح جب یہ گانا ہمارے اسٹیٹس پر چلتا ہے یا سوشل میڈیا غرض کہیں بھی ہم لگاتے ہیں تو جو بھی لوگ ہمارے اسٹیٹس سے وہ گانا سنتے ہیں تو ان کے اس گناہ سے ان کے علاوہ ہمیں بھی گناہ ملتا ہے۔
گویا ہمارے گناہوں میں اضافے کے لیے ایک اور اکاؤنٹ اوپن ہو جاتا ہے
اور کل جب روز محشر ایک ایک نیکی بہت زیادہ قیمتی ہوگی تو تھوڑی دیر کو سوچیں اگر اس دن ہم بارگاہ خداوندی میں اپنے گناہوں کے ساتھ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ساتھ اٹھائے ہوئے ہوں گے تو پھر تو یہ بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا۔
اس سے پہلے کہ ہم اس فانی دنیا سے پرواز کر جائیں۔کل کے اس بڑے خسارے سے بچنے کے لیے آج خود کو روک لیں۔ اپنے نفس کی شیطانی خواہشات پر قابو پالیں۔
کیا ہمارا گانا سننے کا شوق اتنا اہم ہے کہ اس کے بدلے میں ہم قیمتی سودا یعنی جنت کھو دیں اور اپنے رب کی رحمت اس کی رضا کی بجائے اس کے غضب کے مستحق ٹھہریں۔
حضرت مُحَمَّد ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا سودا سستا نہیں بلکہ بہت قیمتی ہے اور وہ سودا جنت ہے۔اگر تم نے اس قیمتی سودے کو حاصل کرنا ہےتو اس کے لیے تمہیں اپنے نفس کی خواہشات کی بڑی بڑی قربانیاں دینی ہو گی۔
اے انسان آج تو رب سے غافل ہوکر دنیا کی لذتوں ،خواہشات اور اس کی بھلی رنگینیوں میں گم ہو ۔مگر قیامت سے پہلے تمہیں موت کے بعد ایک اور رہائش گاہ میں مسافت طے کرنی ہوگی اور وہ ہے قبر کی رہائش گاہ۔
آپ ﷺ نے فرمایا! اگر میں تمہیں وہ سنا دوں جو میں سنتا ہوں اور وہ دکھا دوں جو میں دیکھتا ہوں تو تم دنیا میں رو گے زیادہ اور ہنسو گے کم۔یہاں آپ ﷺ کی مراد قیامت کی ہولناکیوں کو بیان کرنا ہے۔
قبر پر ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا جب وہ انسان کو پکارتی نہ ہو۔وہ کہتی ہے میں محتاجی و تنہائی کا گھر ہوں،میں کیڑے مکوڑوں کا گھر ہوں۔نیک آدمی کو قبر خوش آمدید کہتی ہے اور زمین پر چلنے،پھرنے والوں میں سب سے پسندیدہ شمار کرتی ہے۔اور اس کے لیے قبر کو اتنا وسیع کردیا جاتا ہے جہاں تک اس کی نگاہ جاتی ہے۔
مگر گناہ گار کو وہ ہلاکت کا نذرانہ پیش کرتی ہے اور وہ زمین پر چلنے ،پھرنے والوں میں سب سے زیادہ اسے مبغوض ترین سمجھتی ہے۔اور اس پر قبر اتنی تنگ کردی جاتی ہے کہ اس کی پسلیاں آپس میں اتنی شدت سے دبا دی جاتی ہیں کہ اس کے جسم کے ذرات مختلف حصوں میں بٹ جاتے ہیں۔اور ستر اژدھے اس پر مسلط کر دیے جاتے ہیں۔اور وہ مسلسل اسے نوچتے رہیں گے ،کاٹتے رہیں گے۔یہاں تک کہ اسے حساب کی طرف بلایا جاۓ۔کہتے ہیں کہ ان ستر اژدھوں میں سے اگر ایک بھی زمین پر پھنکار مارے گا تو جب تک دنیا باقی رہے گی اس جگہ کوئی سبزہ نہ اگ سکے گا۔
قبر جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے اور جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔
اب بھی وقت ہے چن لیں نیکی کی راہ کو۔اور چھوڑ دیں برائی کی راہ۔شامل ہو جائیں رب کو راضی کرنے والوں کی قطار میں۔
یقین کیجیے اگر اب سے لے کر دنیا سے جاتے وقت تک آپ کا رب آپ سے راضی رہا تو آپ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہوں گے کیوں کہ جسے رب مل جاتا ہےناں! وہ کبھی خود کو اکیلا نہیں سمجھے گا۔

0 Comments