بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔
غرور کس بات کا؟
اقصی اقبال
اے مٹی کے بنے انسانوں! کیا تمھیں عقل نہیں، تمہیں پیدا کرنے والا وہ رب، تمہیں رزق دینے والا، تمہیں والدین جیسی نعمت اور دن رات تم پر عنایتیں کرنے والا رب ہے۔ تم تو سانس بھی اپنی مرضی کا نہیں لے سکتے، تو پھر غرور کس بات کا؟
سب کا پالن ہار اللہ ہے۔ (بےشک) کیا تم دین اسلام کو نہیں سمجھتے؟ کیا تمہیں نہیں پتا کہ وہ کیا درس دیتا ہے؟ یہ تمہارا حسن، تمہارا پیسہ، تمہاری جائیداد اور تمہارا غرور سب مٹی میں ملنے والا ہے۔ صرف تمہارے اعمال تمہارے ساتھ آخرت میں ہونگے۔ ہمارا پیارا دین اسلام جس پر ہمیں فخر ہونا چاہئیے اور اس سے پیار اور دلی لگن ہونی چاہئیے۔ یہ سکھاتا ہے کہ سلام میں پہل کرو، کہ تم پر سلامتی ہو، تو غرور ختم! صدقہ خیرات کرو، اللّٰہ کی راہ میں اپنی قیمتی چیز وقف کرو، نماز پڑھو، جب ہم اللّٰہ کے آگے جھکتے ہیں تو ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیۓ، یا اللّٰہ میں تیرے آگے جھکا ہوں، میں بے بس ہوں، میں کچھ نہیں کر سکتا جب تک تو نہ چاہے، غرور ختم! جب ہم سجدے میں ہوتے ہیں تو ہمارا سر زمین پر، ہمارے دونوں گھٹنے زمین پر، ہمارے ہاتھ زمین پر اور ہماری ناک جس کو ساری زندگی عزت کی خاطر اونچی رکھتے ہیں جب ہمارے رب کے آگے جھکتی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یا اللّٰہ تمام جہانوں کی تعریف تیرے لیے۔ (بےشک) روزہ، صبر، حج ہمیں اس بات کا علم دیتے ہیں کہ اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ کوئی اس کی مرضی کے بغیر کوئی کام کر سکتا ہے۔ عزت دینے والی وہی رب کی ذات ہے۔ (بےشک) جب ہم خود کو جانتے ہیں تو یقین ہوتا ہے کہ ہر انسان کا یہی حال ہونا ہے، سب نے اپنا سب کچھ یہیں چھوڑ کر اپنے رب کے حضور ان سب چیزوں کا حساب دینا ہے تو ہم سب مسلمان کیوں لڑتے جھگڑتے ہیں؟ ہم سب مسلمان ایک جیسے ہیں، ایک جیسا حال ہونا ہے۔ ہم سب کو ایک دن مر ہی تو جانا ہے تو غرور کس بات کا؟

0 Comments