بسم اللہ الرحمن الرحیم
آغازِ حیات
اُسوہ قمر
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں
زندگی میں ہم سب کہیں نہ کہیں اپنے آپ سے لڑ رہے ہوتے ہیں، کبھی آزمائشوں سے تو کبھی سخت امتحانوں سے، زندگی ہر ایک سے الگ انداز سے امتحان لے رہی ہے۔کوئی دولت کے لیے لڑ رہا ہے تو کوئی شہرت کے لیے ،کوئی اچھے گھر کے لیے، تو کوئی اچھے رشتوں کے لیے، کوئی اچھے کپڑوں کے لیے، تو کوئی اچھی نوکری کے لیے۔۔کوئی عروج کو رو رہا ہے، تو کوئی زوال کو، کوئی لوگوں کے رویوں سے پریشان ہے تو کوئی خود کو کھو رہا ہے،کوئی اللہ سے تعلق کو مضبوط کر رہا ہے تو وہیں کوئی اس کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔کوئی محبت کے حصول کے لیے لوگوں سے اُلجھ رہا ہے،کوئی اپنوں کی جدائی میں تڑپ رہا ہے تو وہیں کوئی ان سے چھٹکارا بھی چاہتا ہے،کوئی دو وقت کی روٹی چاہتا ہے تو کوئی رزق کی بے قدری کر رہا ہے، کوئی اپنی عزت کو محفوظ کرنے کی جدوجہد میں مسلسل خود کو تھکا رہا ہے تو وہیں کوئی اُس کی عزت کو داغ دار کرنا چاہتا ہے،کوئی دُنیا کا طلبگار ہے تو کوئی اللہ سے دوستی چاہتا ہے،کوئی حاسد ہے تو کوئی پرہیزگار، وقت ایک ہے مگر حالات سب کے مختلف، ہم سب ہمیشہ لاحاصل چیزوں کے حصول کے لئے خود کو تھکا رہے ہیں۔۔مگر میں بتاؤں؟
زندگی میں کچھ بھی ہميشہ کی لیے نہیں ہوتا رنگ ، روپ ، دولت ، شہرت ، نام ، اسٹیٹس ہر چیز آپ کے لیے ایک نئی آزمائش ساتھ لاتی ہے۔۔کبھی رنگت کے حوالے سے لوگوں کو ٹھکرا دیا جاتا ہے تو کبھی دولت کے نام پر غریبوں کی عزت اور مقام کو بھلا دیا جاتا ہے کیا ان کو جینے کا کوئی حق نہیں ،کیا ہمیں اللہ کے رسول ﷺ کی غریبوں کے بارے میں حدیث یاد نہیں؟ جس کا مفہوم ہے تمام غریب لوگ جنت میں نبی کریمﷺ کے ساتھ ہوں گے ،جیسے دو انگلیاں کتنا بڑا اعزاز ہے ان کا۔۔اور ہم کیا کر رہے ہیں؟جو پہلے سے ہی مشکل امتحانوں سے گزر رہے ہیں ان کو اور پریشان کر رہے ہیں۔صرف ایک اسٹیٹس کی بنیاد پر
کیا یہی اصل امتحان نہیں؟
دولت اور شہرت تو اللّٰہ کی عطا ہے۔۔جس کو چاہے زیادہ دے جس کو چاہے کم ،اس میں مقابلہ بازی کیوں؟ دولت ہونا پیسے ہونا آج کے دور کی سب سے بڑی ضرورت ضرور ہے ہم اچھا گھر لے سکتے ہیں، اچھا پہن اوڑھ سکتے ہیں ،کھا سکتے ہیں ، دوسروں کی مدد بھی کر سکتے ہیں، اچھی نوکری نہیں تو اچھا بزنس کر سکتے ہیں لیکن دولت کیوں لوگوں کو مغرور کر رہی ہے؟خود میں خدا کیوں بن بیٹھے ہیں؟ کیا ان کے ذہن سے یہ نکل چکا ہے کہ غرور اللہ کی چادر ہے اور اسی پے ہی جچتا ہے بھلا کبھی کسی فقیر نے غرور کیا ہے ؟ ہم بھی تو اسی کے در کے سوالی اور فقیر ہیں اس سے ہی تو مانگتے ہیں اور شہرت کا نظریہ سرا سر غلط لیا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں جس کے پاس جتنی دولت ہے وہ اتنی ہی شہرت رکھتا ہے بھلا یہ بھی کوئی شہرت ہے جس کا انحصار دولت پے ہو؟ حالاں کہ شہرت تو وہ ہے جو انتھک محنت سے حاصل ہو۔ علم سے ، کام سے ، عمل سے۔۔
خود کو مضبوط کریں ، نکھار لائیں۔۔ اور جو ہے اس کی قدر کریں۔۔رشتوں کو عزیز رکھیں لوگوں کے رویوں سے پریشان ہونا چھوڑیں۔۔اللہ کے لیے کریں جو بھی کریں آپ چٹکی برابر بھی کوئی نیک عمل کرتے ہیں جو خالص اللہ کی رضا کے لئے ہو تو اللہ آپ کو اُس کا بہت اجر عطا کرتے ہیں اُس کی مخلوق کی مدد کریں وہ آپ کی مدد کرے گا ۔کسی کو حقیر نہ جانیں آپ کو نہیں پتہ کون اللہ کے کتنا قریب ہے،اللہ اس کو کتنا عزیز رکھتا ہے ہمارے یہ جو مسئلے ہیں نا یہ بس اسی لیے ہیں کہ ہمارے دل میں خوف خدا ختم ہو چکا ہے اور بس اپنی ذات سب سے بڑھ کر ہے اپنا تعلق اللہ سے جوڑیں ،حاسدین میں شامل ہونے سے بچائیں خود کو، اور اگر حالات ایسے ہیں کہ دُکھ کے سائے تلے ہیں تو خوشیاں ڈھونڈیں وہ یہی ہیں ہمارے اردگرد، ہمارے آس پاس، بس ایک نظر چاہیے ان کو کھوجنے کی لیے نماز اور صبر کے ساتھ اللہ سے مدد طلب کریں ، کسی بھی چیز کی پیچھے اتنا مت بھاگیں کہ جو پاس ہے وہ کھو جائے چاہے وہ رشتے ہوں ، محبت ہو ، عزت ہو ، نام ہو۔ جتنا ملا ہے اس میں ہی خوش رہیں اور خوش رکھیں، اس چھوٹی زندگی میں ہر وہ عمل کرنے کی کوشش کریں جو ابدی زندگی میں آسانیاں پیدا کر سکے۔

0 Comments