علامہ اقبال// جواب شکوہ//چار اشعار کی تشریح: بقلم حرا بنتِ اخلاق/ Hira Akhlaq Writes

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ

حرا بنتِ اخلاق

علامہ اقبال// جواب شکوہ//چار اشعار کی تشریح: بقلم حرا بنتِ اخلاق/ Hira Akhlaq Writes

اقبال ربِ تعالیٰ کا کرم تھے۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے عقل لازم ہے۔ اور عقل کا محل قلب ہے۔ یعنی اگر قلب میں ربِ تعالیٰ کی محبت اور اس کی معرفت کا جذبہ نہیں ہو گا تو اقبال کی باتیں سمجھ نہیں سکیں گی۔ 

اقبال روحانیت سے بھرپور شخصیت۔ سراپا عجز و محبت۔ہمارے قومی شاعر۔ ایسا ہوا کہ اقبال نے ایک نظم لکھی "شکوہ" کے نام سے۔ یہ خاصی طویل نظم ہے۔ اس میں انہوں نے رب تعالیٰ سے شکوے کیے ہیں۔ اب جب انہوں نے یہ نظم لکھی تو لوگوں نے کج فہمی کی وجہ سے ان پر کفر کے فتوے لگا دیے۔ اب رب تعالیٰ کو کہاں یہ منظور ہو سکتا ہے کہ ان کے عاشق پر کوئی کفر کا فتویٰ لگا دے۔ پھر اللہ پاک نے اقبال سے "جوابِ شکوہ" لکھوائی۔ اور سب کی زبانوں پر تالے لگا دیے۔ اقبال کی جوابِ شکوہ کے دو اشعار دیکھیے

ع تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا؟

عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا؟

تا سرِ عرش بھی انسان کی تگ و تاز ہے کیا؟

آ گئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟

اقبال کے ان اشعار کے مطابق جب اقبال نے اللہ سے شکوہ کیا تو فرشتے حیران رہ گئے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے؟ یہ تو انسان کی آواز ہے اور انسان تو زمین پر رہتے ہیں۔ یہ کون سا راز ہے جس سے عرش والے بھی ناواقف ہیں۔ بنی آدم کیسے عرش تک پہنچ گیا ہے؟ 

یہ شعر یقینا کوئی صوفی ہی لکھ سکتے ہیں۔ اس شعر سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایسے بہت سے راز ہیں جس سے فرشتے بھی ناواقف ہیں۔ اور انسان کی اوقات صرف زمین پر رہنے کی نہیں ہے۔ انسان یونہی اللہ کا نائب نہیں ہے۔ اللہ نے بہت سے راز رکھے ہوئے ہیں اس کائنات میں۔ جنہیں جاننے کے لیے علم کا حاصل کرنا لازم کر دیا ہے۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے بھی آپ میں ذوقِ حصولِ علم ہونا چاہیے۔ آج بھی بہت سے لوگ اپنی کم عقلی اور کم علمی کی بناء پر اقبال کو غلط سمجھتے ہیں۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے محسن، اللہ کے خاص بندے کی حقیقت سب کو سمجھائیں۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اقبال کو سمجھنے کی راہ پر چلے اور اللہ کو ملے بغیر واپس آ جائے۔ ہاں مگر جس کے لیے ہدایت کے دروازے اللہ نے بند کر دیے ہوں۔۔۔

:اسی نظم میں اقبال آگے جا کر لکھتے ہیں

ع کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں

ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگر ہیں

امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں 

(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)

ان اشعار میں اقبال اللہ کی باتیں ہم تک پہنچا رہے ہیں۔ جو اللہ نے انہیں ان کے شکوہ کے جواب میں کہی ہیں۔ اقبال نے اللہ سے شکوہ کیا تھا۔ کہ مسلمانوں کے لیے دنیا اتنی نایاب کیوں ہے؟ دنیا اللہ کی ہے اور اللہ ہمارے ہیں تو اس حساب سے تو دنیا بھی ہماری ہونی چاہیے ناں۔ تو اللہ پاک اب اس کا جواب دے رہے ہیں کہ اگر کوئی اس قابل ہو تو اسے دنیا بھی نئی مل جاتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس جہاں کے علاوہ بھی بہت سے جہاں ہیں۔ آسمانوں کے پار۔ جہاں صرف علم والے، محبت والے،تڑپ والے ہی جا سکتے ہیں۔ جن میں ذوق ہو،لگن ہو،تڑپ ہو۔ صرف ایسے ہی لوگوں کو اللہ اس پار کی دنیا دکھاتے ہیں۔ دوسرا ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ اللہ پاک نے ابھی بھی یہ نہیں کہا کہ تمہیں یہ دنیا مل جائے گی۔ انہوں نے ایسا اس لیے نہیں کہا کیوں کہ وہ پہلے ہی واضح طور پر قرآنِ پاک میں کہہ چکے ہیں کہ ان کے نزدیک اس دنیا کی اوقات مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ اور اس بات سے اقبال بخوبی واقف تھے۔ 

لاکھوں لوگ ہیں جو اللہ سے محبت کے دعوے تو کرتے ہیں مگر اللہ ہی کی نافرمانی کرنے سے باز نہیں رہتے۔ان کے دل گناہ کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب ایسے لوگوں کو اللہ کیوں کر اپنائے جو اسے ہی نہیں اپناتے۔ لوگ اللہ کی نافرمانی کر کے گویا اپنے نبی کی رسوائی کا سامان کر رہے ہیں۔ یہ مصرع کسی بھی عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دل چیر سکتا ہے۔جب جب ہم کوئی گناہ کرتے ہیں مطلب ہم اپنے نبی کی نافرمانی کر رہے ہیں اور نافرمانی اسی کی کی جاتی ہے جس سے پیار نہ ہو۔ 

 اقبال کے الفاظ میں اتنا درد کہاں سے آیا؟ ظاہر ہے اقبال کے دل میں جو درد تھا وہی ان کے الفاظ کی صورت ظاہر ہو رہا ہے۔ اقبال ایسی درد بھری باتیں کر کے صرف قوم کو، امت کو جگانا چاہ رہے ہیں ایسی نیند سے جو انہیں دلدل میں دھنسائے جا رہی ہے۔ آج کے دور میں اقبال کو پڑھنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ دل میں جو عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درخت ہے وہ سیراب ہوتا رہے۔

اللہ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

Post a Comment

2 Comments