بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
بین جوائے لینڈ فلم
عالیہ بشیر
کافی دنوں سے میں دیکھ رہی ہوں کہ سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے مووی "جوائے لینڈ" کو لے کر۔ اس وقت تین طرح کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو چاہتے ہیں کہ مووی ریلیز ہو۔ دوسرے وہ ہیں جو چاہتے ہیں مووی ریلیز نہ ہو۔ تیسرے وہ جنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ پنجابی میں جیسے کہتے ہیں ناں کہ "جی سانوں کی" مطلب جو ہو رہا ہے ہونے دو۔
انتہائی افسوس کہ ہماری وفاقی حکومت مووی کے ریلیز کی اجازت بھی دے چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر بہت سے اداکار اس فلم کے ریلیز ہونے کے حق میں ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ یہ فلم کوئی سنگ میل ثابت ہو گی۔ بنیادی طور پہ فلم کو یوں پیش کیا جارہا ہے کہ یہ خواجہ سرا کے اوپر بنائی گئی ہے۔ حالانکہ اس فلم میں کہیں بھی خواجہ سرا کا ذکر نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو ایک مرد کی مرد سے محبت پر بنائی گئی ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر دونوں الگ الگ ہیں۔ ٹرانس جینڈر یعنی ایک مرد جو کہ بائیولوجیکلی تو مرد ہے لیکن وہ خود کو عورت ظاہر کرتا ہے اور عورت جو کہ بائیولوجیکلی تو عورت ہے لیکن خود کو مرد ظاہر کرتی ہے۔ جب کہ خواجہ سرا میں وہ لوگ ہیں جو ظاہری طور پہ تو مرد نظر آتے ہیں لیکن وہ ہوتے عورت ہیں اور یہی خواجہ سرا عورت کے لیے بھی۔
اب آتے ہیں مووی کی طرف، سب سے پہلے تو ایک بات واضح کر دوں کہ اس فلم میں صرف مرد کی مرد سے محبت کو ہی نہیں پیش کیا جارہا بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے۔ اس فلم کی کہانی یہ ہے کہ ایک خاندان ہے جس میں دو بھائی ہیں ان کا باپ ہے ماں مر چکی ہے اور بھائی دونوں شادی شدہ ہیں۔ چھوٹا بھائی جو کہ بے روزگار ہے اور ساتھ میں اس کی ازدواجی زندگی میں بھی مسائل ہیں۔ وہ ایک تھیٹر میں نوکری کرتا ہے جہاں وہ ایک بائیولوجیکل مرد جو کہ عورت بنا ہے اس کی محبت میں گوڈے گوڈے ڈوب جاتا ہے۔ اور ادھر اس کی بیوی اس کے بڑے بھائی کے ساتھ تعلقات قائم کر لیتی ہے اور اس کے ابا جو کہ وہیل چیئر پر ہے وہ اپنی ہمسائی کے ساتھ تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں۔
آخر میں یہ دیکھاتے ہیں کہ چھوٹے بھائی کی بیوی خودکشی کر لیتی ہے کہ اسے یہ پچھتاوا ہوتا ہے کہ اس نے اپنے جیٹھ سے تعلقات قائم کیے۔ اور پوری کہانی کا مقصد یہ واضح کرنا کہ صرف حیدر جو کہ تھیٹر میں کام کرتا ہے اس کی اور دوسرے مرد کی محبت ہی سچی تھی۔
یعنی کہ آپ دیکھیں کہ یہ کس طرح سے اپنا ایجنڈا پھیلا رہے ہیں۔ کس طرح مذہبی قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ یہ تو قوم لوط سے بھی آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس فلم کی کاسٹ ممبر کا کہنا ہے کہ یہ فلم 18+ والوں کے لیے ہے۔ جبکہ کہ فلم کے ہدایت کار اور مصنف صائم صادق کا کہنا ہے کہ یہ ایک فیملی فلم ہے۔ اور اسے دیکھ کر اسے اپنے ابا کی یاد آتی ہے۔ اور اس میں اپنا خاندان نظر آتا ہے۔ بھئی اگر یہ تمہارے خاندان کی کہانی ہے تو اپنے تک ہی رکھو نا اس گند کو۔ معاشرے میں پھیلانا چاہتے ہو؟ اور مزید برآں اس فلم کی ساری فنڈنگ امریکہ کی طرف سے کی گئی ہے۔ بھئی امریکہ کو کیا ضرورت کے وہ پاکستان کی کسی فلم میں سرمایہ لگائے؟ انڈیا اس فلم کو سراہنے میں بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ ہر طرف سے اس فلم کو ہی کیوں ایوارڈ دئیے جارہے ہیں؟ ایسا کیا ہے اس فلم میں سوائے فحاشی اور گناہ کے کہ جس کو ہر غیر مسلم پروڈیوسر، ہدایت کار اور مصنف پروموٹ کر رہے ہیں۔
ملالہ یوسف زئی اس فلم کی پروڈیوسر ہے۔ ایک ایسی عورت اس فلم کی پروڈیوسر ہے جس نے کہا تھا کہ مرد عورت بنا نکاح کے بھی ساتھ رہ سکتے ہیں۔
ایک ایسی عورت جو صرف تب بولتی ہے جب اسلام کے خلاف بات ہو رہی ہوتی ہے اور یہ اسے مثبت طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ انگریزوں کی ماؤتھ پیس، فلم میں حرام تعلقات کو انتہائی آسان کرنے کے ساتھ ساتھ Homosexuality کو بھی عام کرنے کی بات کرنے جا رہی ہے۔ اس فلم میں ہر گناہ کو بہت ہی اچھا بنا کر یعنی نارمل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ کبیرہ گناہ کو اس میں نارمل دکھایا جا رہا ہے۔
آپ سب سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے خدارا خاموش نہ رہیں اپنی آواز اٹھائیں اور اس گناہ کو روکیں۔ کیا 5% لوگ جو خود کو سو کالڈ لیبرل کہتے ہیں وہ ہم پر بھاری ہیں؟ خدارا اپنی آنے والی نسلوں کو بچائیں اپنے دین کو بچائیں اپنے اس ملک کو بچائیں جو کہ اللہ کے نام پر بنایا گیا ہے یہ ملک اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اور اسلام کے اس قلعے کو نقصان پہنچانے کی ہر، ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اس فلم کی ریلیز کے خلاف آواز اٹھائیں۔ جہاں تک آپ کی رسائی ہے آپ کوشش کریں۔
#Islam
#power
#banjoyland
#banjoylandmovie
#banjoyland


0 Comments