مصوری اور اللہ تعالیٰ بقلم ایمان فاطمہ بنت عبدالوحید

بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم۔

 وہ راستے جو تیری اور چلیں

 ایمان فاطمہ بنتِ عبدالوحید 

اسے بہت پسند تھا مصوری کرنا، وہ اپنے کام میں ماہر تھی۔ اس نے بہت وقت لگا کر سیکھا تھا یہ سب۔ 

پر پھر وہ زندگی کے ایک مقام پر پہنچی جب اس کو سمجھ آیا کہ الله تعالٰی کو یہ سب پسند نہیں ہے۔

اس نے اپنا شوق ترک کر دیا فوراً سے تو نہیں، کچھ وقت لگا۔ 

مگر کچھ عرصے بعد، وہ پھر سے مصوری کی طرف مائل ہونے لگی۔ اس نے کاغذ اور پینسل پھر سے تھام لی۔ اس نے کئی عمدہ تصویریں بنائیں کیونکہ اب کی بار وہ ایک لمبے وقفے کے بعد یہ سب کر رہی تھی سو اس کے جذبات میں کچھ شدت تھی۔

وہ کرتی رہی اپنا کام، پھر ایک وقت آیا جب اس نے پھر سے سوچا کہ سب چھوڑ دینا چاہیے، اور اس نے چھوڑ بھی دیا وہ سب، مگر کہیں ڈگمگانے کے امکان اب بھی موجود تھے۔

وہ شاید ڈگمگا ہی جاتی اگر الله اس کی مدد نہ کرتے۔ اللہ نے اسے ایک ایسی دوست سے ملوایا جس کے ہاتھوں میں بھی کاغذ اور قلم تھا، مگر اس کا فن مختلف تھا۔

وہ آیات لکھتی تھی، حق باری تعالٰی کا نام لکھتی تھی۔

اس مختلف پہلو سے تو وہ انجان تھی۔ پہلے وہ اس سے متاثر ہوئی پھر اس نے اس شوق کو اپنا لیا۔

اس گڑیا گڈے بنانے والی نے وہ سب چھوڑ دیا۔ اس کے ہاتھوں کو بھی شرف بخشا گیا کہ وہ کلامِ الٰہی لکھے۔ اب اس سے بڑھ کر سعادت کیا ہو سکتی تھی اس فنِ مصوری میں۔

اس کے گمان سے بھی پَرے تھا کہ اللہ اس کے فن کو ایک مثبت سمت عطا کر دیں گے۔ اسے تو معلوم ہی نہ تھا کہ اس کے شوق کا مثبت پہلو بھی ہے۔

اس نے مصوری سے خطاطی تک کا جو سفر طے کیا تھا اس سے اس نے یہی سیکھا تھا کہ اللہ رائیگاں نہیں جانے دیتے ان قربانیوں کو، جو خالصتاً اللہ کے لیے دی گئی ہوتی ہیں۔

Post a Comment

0 Comments