بھیک مانگنا بقلم عذرا عبدالشکور

 بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔

مجھے عادت ہے مانگنے کی

عذرا عبد الشکور

بھیک مانگنا بقلم عذرا عبدالشکور

پہلے لوگ مجبوری میں کسی کے آگے دستِ سوال دراز کرتے تھے، مگر اب یہ لوگوں کا روزگار بن چکا ہے۔ کوئی گلی، محلہ، سڑک، بازار کسی بھی جگہ چلے جائیں آپ کو بچے، مرد، عورتیں اور بزرگ ملیں گے جو ہر آتے جاتے سے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اور کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ اچھے بھلے، ہٹے کٹے مرد بھی ہاتھوں میں کاسہ لیے سوالی بنے ہوتے ہیں۔ اور اکثر اوقات تو ان کی پوری ٹیم ہوتی ہے۔ کچھ دہائیوں سے یہ سلسلہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسے ایسے طریقوں سے لوگوں کو ایموشنل بلیک میل کیا جاتا ہے، (اللہ تیرا بھلا کرے، تمہیں چاند سا دولہا دے، تیری دلی مراد پوری ہو، تجھے چاند سی دلہن ملے، تجھے اللہ اولاد دے، بہت ساری دولت ملے, وغیرہ وغیرہ) اب ایسے جملے سن کر لوگ مجبور ہو جاتے ہیں، ان کو پیسے دینے کے لیے۔

 کل ہی ایک صاحب بتا رہے تھے، کہ میں نے ایک شخص پر ترس کھا کر اس کو کام کی آفر کی تو آگے سے بڑا روکھا جواب ملا، کہ پیسے دینے ہیں تو دو، کام وام نہیں ہوتا ہم سے۔ جتنی تم دیہاڑی دو گے اتنا تو میں مانگ کر کما لیتا ہوں۔

کس حد تک ڈھیٹ اور کام چور لوگ ہیں، کہ محنت کرنے کے بجائے بھیک مانگنا اچھا لگتا ہے، اور اس میں بہت حد تک ہماری عوام کا ہاتھ بھی ہے جو ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر ان کو پیسے دے دیتے ہیں۔

میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ان کی مدد نہ کی جائے بلکہ ان کو پیسے دینے کے بجائے کھانے پینے کی اشیاء جیسے کہ جوس، بسکٹ، نمکو، وغیرہ دی جائیں۔ جیسے آپ اپنے پاس کھلے پیسے رکھتے ہیں۔ ان کو دینے کے لیے، اسی طرح پرس میں، گاڑی میں اپنے پاس یہ چیزیں رکھیں۔ تو کسی حد تک ان کی تعداد میں کمی واقع ہوگی۔ اور یہ لوگ کوئی محنت مزدوری کرنے کا بھی سوچیں گے۔اپنی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات اپنے اردگرد مستحق رشتہ داروں، پڑوسیوں اور سفید پوش لوگوں کو تلاش کرکے ان کو دیں۔ وہ اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ شرم کے باعث کسی سے سوال نہیں کرتے۔ اور تنگ دستی کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔بھوکے کو کھانا ضرور کھلائیں، مگر پیسے دے کر بھکاری نہ بنائیں۔

،کرتا نہیں سوال میں مجبوری سے

،مجھ کو عادت ہے مانگنے کی

ہیں سلامت میرے سارے اعضاء لیکن

!مجھ کو عادت ہے کام چوری کی

Post a Comment

0 Comments