تنہائیاں بقلم ایمان فاطمہ بنت عبدالوحید

 بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ۔ 

تنہائیاں

ایمان فاطمہ بنتِ عبد الوحید 

تنہائیاں بقلم ایمان فاطمہ بنت عبدالوحید

وہ تنہائیاں جن سے ہم اکتاتے ہیں، انھیں ہم بڑے عمدہ انداز میں بروئے کار لا سکتے ہیں۔

پتا ہے کیسے؟

میں بتاتی ہوں مگر سب سے پہلے آپ جان لیں کہ آپ کی تنہائی کس نوعیت کی ہے؟

کچھ لوگوں کو وقتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً گھر والے اگر کہیں گئے ہیں تو ایسی صورتِ حال میں انسان تنہا تو ہوتا ہے مگر عموماً اس کے ذمے کئی اور کام ہوتے ہیں۔

تو یہاں اس تنہائی کا ذکر نہیں کیا جا رہا، یہاں وہ تنہائی موضوعِ گفتگو ہے جو بڑی طویل، بہت صبر آزما ہوتی ہے۔ جو قدرتی طور پر بطورِ امتحان، ایک مخصوص دورانیے، کے لیے کچھ لوگوں کو گزارنا پڑتی ہیں۔ یہ اس تنہائی کا ذکر ہے جو کسی یتیم بچے کو، کسی بیوہ کو، کسی بڑھاپے میں تنہا کر دیئے گئے والدین کو، بھیڑ میں کھڑے تنہا شخص کو اپنی ذات میں محسوس ہوتی ہے۔

تو ایسی صورتِ حال میں جب بندے نے تنہائی خود نہ چُنی ہو بلکہ وہ اس کا واقعتاً شکار ہو گیا ہو، اس وقت آپ کے خیال میں اس کو کیا کرنا چاہیے؟

پہلی بات اگر تنہائی کسی انسان نے خود چنی ہے، خود ہی لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے تو یہ کہیں نا کہیں اس کا اپنا ہی قصور ہے۔ ہمارا دین تو حقوق العباد پورے کرنے کا حکم دیتا ہے اور ایسے ہی ہمارے بھی حقوق بندوں پر لازم کرتا ہے۔

دوسری بات، اگر تنہائی اختیاری نہیں بلکہ قدرتی ہے تو:

  1.  انسان کو صبر کرنا چاہیے۔
  2.  اللہ پر بھروسہ قائم رکھنا چاہیے کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے اور جب بندے کو اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ میرا اللہ میرے ساتھ ہے تو اس کے لیے تنہائی، تنہائی ہی نہیں رہتی۔
  3.  اس تنہائی کا سب سے بہترین استعمال یہی ہے کہ بندہ زیادہ سے زیادہ وقت اللہ کے ساتھ بِتائے اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرے، اپنے فرائض بہتر طریقے سے سر انجام دے۔
  4.  اگر ایک نوجوان انسان تنہائی کا شکار ہے تو وہ خود کو بھلائی کے کاموں میں مصروف کر لے۔ اپنے بزرگوں کی خدمت کرے، اگر بزرگ میسر نہ ہوں تو اپنے سے وابستہ لوگوں کا دھیان رکھے اور رضاکارانہ طور پر مخلوقِ خدا کی خدمت کرے۔
  5.  کسی ادارے، کسی مجلس، کسی بھیڑ میں جب بھی آپ کو تنہائی محسوس ہو، تو آپ درود شریف پڑھنے لگ جائیں۔

خوش رہیں، خوشیاں بانٹیں

جزاک اللہ خیرا کثیرا 

 یغفراللہ لنا ولکُم

اللہ_والے

ایمان فاطمہ عبدالوحید

Post a Comment

0 Comments