بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
تربیت
حرا بنتِ اخلاق
عام طور پر تربیت کے لفظ پر جو خاکہ ذہن میں آتا ہے وہ ہوتا ہے بچوں سے متعلق۔۔میرا سوال۔۔
کیا تربیت کی ضرورت صرف بچوں کو ہوتی ہے؟
میرے نزدیک تو ہر اس شخص کو تربیت کی ضرورت ہے جو سانس لیتا ہے۔ سیکھنے کا عمل کبھی ختم نہیں ہوتا۔
کیا آپ نے کبھی سانس لینا سیکھنا چاہا ہے؟ سانس کیسے لیتے ہیں؟
!اے میرے قارئین
درحقیقت سب سے ضروری تربیت ہی یہی ہے کہ کوئی آپ کو سانس لینا سکھا دے۔ جب آپ کو سانس لینا آ گیا تو سارا جسم، تمام مادی اعضاء، تمام لطائف۔۔یہ سب تو خود بخود درست ہو جائیں گے۔
میرا موضوع تربیت یہ کوئی محدود موضوع نہیں ہے۔انسان کی تربیت بچپن سے شروع ہوتی ہے اور آخر تک چلتی رہتی ہے۔
سانس ایسے لیں کہ ہر سانس سے اللہ کی خوش بو آئے۔ایسی سانس تو اللہ والوں کی ہوتی ہے اور آپ ایسی سانس لینا اللہ والوں سے ہی سیکھ سکتے ہیں۔ کیوں کہ سیکھا اس سے جاتا ہے جو اس کام میں مہارت رکھتا ہو اور اللہ والے۔۔۔۔وہ ماہر ہوتے ہیں سانس لینے کے۔ وہ آپ کو سکھا دیں گے کہ سانسوں میں اللہ کی خوش بو کیسے شامل ہو جاتی ہے۔ جسم میں سانس کے ذریعے جو آکسیجن جاتی ہے وہ عشقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کیسے بدل جاتی ہے؟ یہ بڑے راز کی باتیں راز والے ہی بتا سکتے ہیں۔
کچھ لوگ جو اپنے لیے چاروں طرف سے سیکھنے کے دروازے بند کر کے بیٹھ جاتے ہیں وہ کبھی کچھ سیکھ نہیں پاتے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں ہم سب سیکھ چکے۔ اب مزید کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں یا سیکھنے کی عمر گزر چکی یا اب انہیں سکھانے والا کوئی نہیں ہے اب انہیں دوسروں کو سکھانا ہے بس۔
یاد رکھیں! دوسروں سے پہلے خود کی تربیت پہ غور کریں۔ سکھانا بہترین عمل ہے مگر اس عمل میں سیکھنے کو ترک کر دینا عقل مندی نہیں۔ سیکھنا اور سکھانا یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں اور ساری عمر چلتے رہتے ہیں۔ اسی طرح سیکھنے کے عمل میں سکھانا ترک کر دینا بھی درست نہیں۔
جو لوگ کسی اللہ والے کی تلاش نہیں کرتے، اگر کوئی اللہ والے مل جائیں تو ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے وہ کبھی قربِ الٰہی کے اعلیٰ معیار تک پہنچ سکتے نہیں ہیں۔ ہر ولی اللہ نے کسی ولی اللہ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ' شاہ شمس تبریزرحمتہ اللہ علیہ کے بغیر کچھ بھی نہیں تھے۔
تو پھر ڈھونڈیں ایسے ماہروں کو جو آپ کو سکھا سکیں سب سے ضروری عمل۔ "سانس لینا"۔ دعا کریں اللہ سے کہ وہ آپ کو ایسے ماہرین کی صحبت نصیب کر دے جس سے آپ کو فائدہ ہو۔ آپ سب سیکھ جائیں۔ جو آپ کو اللہ کو پکارنا سکھا سکیں۔ کیوں کہ جب اللہ کو پکارنا آ جاتا ہے تو ہر کام ہو جاتا ہے۔ کوئی حاجت ہی باقی نہیں رہتی۔
انسان ہمیشہ دوسرے کی تربیت پر ہی انگلی اٹھاتا ہے۔ یاد رکھیں! جب ہم کسی کو برا کہہ رہے ہوتے ہیں اصل میں ہم خود برے ہوتے ہیں۔
ابو جی کہتے ہیں سب سے گھٹیا شخص وہ ہے جو کسی کو گھٹیا سمجھتا ہے۔ تربیت کا آغاز خود سے کرنا ہے۔ سب سے پہلے خود کی اصلاح کرنی ہے۔ اگر ہم انفرادی طور پر صرف اپنی ہی اصلاح پر زور دیتے رہیں تو ہمارا ماحول بھی درست ہو جائے گا۔ انسان کا اثر اس کے ماحول پر بہت زیادہ ہوتا ہے۔
یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ ہم جس ماحول میں رہ رہے ہیں وہاں رہتے ہوئے اپنی اصلاح نہیں کر سکتے۔ آپ کا ماحول کفارِ مکہ کے ماحول سے زیادہ مشکل تو نہیں ہو سکتا۔ ماحول کے غلام نہ بنیں بل کہ ماحول کو اپنا غلام بنائیں۔ لوگ آپ کے ہوتے ہوئے کوئی غلط کام نہ کر سکیں ایسی شخصیت ہو آپ کی۔ یوں آپ اپنی تربیت میں معاشرے کی تربیت کر دیں گے۔
رہی بات بچوں کی تربیت کی۔ یہ عظیم ذمہ داری ہے۔ جس طرح ماں باپ کو اللہ نے بےشمار فضیلتوں سے نوازا ہے تو ان پر ںےشمار ذمہ داریاں بھی عائد کر دی ہیں۔ بچوں کا اچھا نام رکھنے سے لے کر انہیں حلال و حرام کمانے کی تمیز سکھانے تک تمام تر ذمہ داریاں والدین پر عائد ہوتی ہیں۔ ایک انسان جو اپنی تربیت نہیں کر سکا وہ اپنے بچوں کی تربیت بھی نہیں کر سکتا۔ بچے وہ کرتے ہیں جو وہ اپنے ماں باپ کو کرتے دیکھتے ہیں۔
بہت سے لوگ جو خود کو چھوڑ دیتے ہیں کہ اب ہماری تو عمر نہیں رہی کہ کچھ سیکھ سکیں اب ہم اپنے بچوں کو سکھائیں گے انہیں اپنے جیسا نہیں بننے دیں گے۔ یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہیں اپنی اصلاح کریں۔ جیسے ہی احساس ہو جائے کہ یہ کام غلط ہے چھوڑ دینا چاہیے یا بدلنا چاہیے تو یہ نہ سوچیں اب عمر نہیں رہی۔ درست کر دیں خود کو۔ جب آپ نے چھوٹا سا قدم اللہ کی طرف بڑھایا تو وہ بڑا قدم آپ کی طرف بڑھائے گا۔ آغاز مشکل ہوتا ہے۔ آسان کام میں تو ویسے بھی کوئی مزا نہیں ہے۔ خود کو درست کریں جو کام آپ اپنے بچوں کو کرتے دیکھنا چاہتے ہیں پہلے وہ خود کریں۔ بچے آپ کو کرتے دیکھ کر کرنا شروع ہو جائیں گے۔
یہ بات دھیان میں رکھیں کہ انسان کو قبر تک سیکھنا ہی ہے۔ یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ آپ ماہر ہو چکے ہیں۔ آپ کو اب تربیت کی ضرورت نہیں یا آپ کو سکھانے والا کوئی نہیں۔ سیکھیں! چاہے چیونٹی ہی آپ کو سکھا رہی ہو۔ آپ کو سیکھنا ہے۔ سیکھنے والا کبھی خالی ہاتھ نہیں رہتا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی ہو کر سیکھنے نکلے تھے۔ اللہ والے کو ڈھونڈنے نکلے تھے۔ تو پھر ہم تو ایک عام انسان ہیں۔ ہم کیوں سیکھنے کو عار سمجھتے ہیں؟
اللہ سمجھنے کی، عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین۔
ایسی مزید تحاریر پڑھنے کے لیے فالو کریں جهاد بالقلم کی اس ویب سائٹ کو۔ جزاک اللّٰہ خیرا

0 Comments