بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
کتنی عزیز ہوتی ہیں آخری سانسیں
ضحیٰ شبیر
ہمیں ہوتی ہیں نا؟ ہیں نا۔۔۔ کتنی عزیز ہوتی ہیں نا وینٹی لیٹر پر مصنوعی آکسیجن پر چلتی آخری سانسیں۔۔۔۔ زخموں سے چور جسم سے نکلتی آخری چند سانسیں، بیماری سے لڑتے لڑتے دم توڑتی آخری چند سانسیں۔۔۔۔ جیسے ہی ہمارے کانوں سے ایسی کوئی خبر کی آواز ٹکراتی ہے یا ہماری نظروں سے گزرتی ہے کہ ہمارا وہ فلاں ہم جماعت، فلاں ساتھی، فلاں رشتہ دار یا فلاں دوست نہ جانے کب فانی سے لافانی کی طرف سفر کر جائے۔ لگتا ہے کانوں میں کسی نے درد ناک چنگھاڑ چھوڑ دی ہو یا آنکھوں میں اتنی سخت چبھن ہوتی ہے نہ چاہتے ہوئے اشکوں کی قطار رخساروں پر بہتی آنکھوں کو دھندلا کر جاتی ہیں۔
کیسے اہم اہم مصروفیات یک دم تھم جاتی ہیں اور ایک سفر ہی سب سے اہم ہوتا ہے۔ کسی اپنے کی چلتی آخری سانسوں کے تھمنے سے پہلے اس تک پہنچنے کا سفر۔۔۔
کبھی دل چاہتا ہم پر لگا کر اڑ جائیں اور گھنٹوں کی مسافت منٹوں اور منٹوں کی مسافت سیکنڈوں میں طے ہو جائے۔ کبھی دل چاہتا ہے وقت تھم جائے، کائنات ساکت ہو اور گھڑی کی سب سے باریک سوئی کی ٹک ٹک بھی نہ آئے اور آخری سانسیں ہمارے پہنچنے تک چلتی رہیں۔ اور جب ہم اس فرد تک پہنچتے ہیں تو کس قدر اذیت ناک لمحہ ہوتا ہے۔۔۔
وینٹی لیٹر پر پڑے زرد چہرے پر ملاقات کی جہاں خوشی جھلکتی ہے وہاں اس کی آنکھوں سے جھلکتا کرب ہمارے دل پر تیر کی طرح لگتا ہے۔ اس کے آنسو کچھ کہنے نہیں دیتے اور ہمارے آنسو کچھ سننے نہیں دیتے۔
ہم بمشکل ہاتھ تھام کر تسلی دیتے ہیں "آپ کو کچھ نہیں ہو گا آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔" لیکن نہ جانے تب ہمیں ہمارے ہی الفاظ پرائے محسوس ہوتے ہیں جیسے اعتماد، یقین اور بھروسے سے خالی کھوکھلے ڈھانچے ہوں۔
لیکن اکثر تو اس سے تکلیف دہ وقت آتا ہے۔ ہمارے پہنچنے اور پکارنے سے پہلے ہی نام کی جگہ "میت" لفظ استعمال ہوتا ہے اور کوئی باہمت عزیز ہمارے آنکھوں کی سرخی دیکھ کر ہلکی سی تھپکی دیتے بتاتا ہے آپ کا ذکر کرتے تھے اپ کو یاد بھی اکثر کرتے تھے لیکن شاید ملاقات نصیب میں نہیں تھی صبر کریں اور دعا کیجئے۔
پھر ایک مشکل گھڑی اور بھی گزرتی ہے جب اس انسان جس کے ساتھ چند ملاقاتیں ہی کیوں نہ کی ہوں.، اس کو دفنانا پڑتا ہے۔
مٹھی بھر مٹی ہتھیلی سے آہستہ آہستہ پھسل رہی ہوتی ہے اور دماغ میں ایک ساتھ بیتا ہر لمحہ فلم کی طرح مسلسل چل رہا ہوتا ہے۔ آنکھوں میں نمکین پانی کی تہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور جب آنکھوں کا کٹورا بھر جاتا ہے تو ایسے چھلک پڑتے ہیں جیسے ایک لڑی میں پروئے موتی یکدم ٹوٹ کر بکھرنا شروع ہو جائیں۔
منوں مٹی تلے ایک شخص کو چھوڑتے معلوم ہوتا ہے زندگی میں "زندگی" کے سوا ہر شے بے معنی سی ہے۔
چلے جانے کی عجلت میں
دلوں پر جو گزرتی ہے
مسافر کب سمجھتے ہیں
انہیں احساس کب ہوتا ہے
یہ زاد راہ سمیٹیں تو
کسی کا دل سمٹتا ہے۔۔۔
رگوں میں خون جمتا ہے!
کسی کے الوداعی ہاتھ ہلتے ہیں
مگر دل ڈوب جاتا ہے۔۔۔۔
مگر جانے کی عجلت میں
مسافر کب سمجھتے ہیں؟
(منقول)
منوں مٹی تلے اپنے کسی کو سلا آنا، ہماری حیات تک کبھی نظر نہ آنے کے لیے کھو آنا، اچانک اک شخص کی کمی ہو جانا، اس کا ہر منظر سے غائب ہو جانا، اس کی جگہ پر ویرانی کا چھا جانا، کپکپاتی ہتھیلیوں سے مٹھی جھاڑ آنا، بہت سے چہروں پر اداسی اور بچھڑ جانے والے کا غم دیکھ کر پلٹ آنا، کس قدر دل دہل جانے والے مناظر دیکھ کر ہم زندہ رہ جاتے ہیں۔
یہ ہم سب کی ہی کہانی ہے ہم سب کبھی نا کبھی اس مشکل حصے سے گزرتے ہیں۔
دور افق کی گہری چپ میں
ہم اکیلے ڈھونڈ رہے ہیں
بِیتے لمحے۔
کھوئے لوگ۔
(منقول)
ہم پوری زندگی یہ سوچتے رہ جاتے ہیں فلاں نے ہمارا ساتھ کیا کیا؟ فلاں نے ہمیں کیا دیا؟ کیا فلاں نے ہم سے رابطہ کیا؟
کبھی کیا ہم نے سوچا ہے ہم نے کسی سے رابط کیا؟ کسی کو کیا کیا دیا، کسی کے ساتھ کیا کیا؟
یہی تو مسئلہ ہے! ہم تاحیات دوسروں کا سوچتے ہوئے گزار دیتے ہیں کبھی خود کو جانتے ہی نہیں۔اپنے لیے سوچتے ہی نہیں ہیں۔
بلاشبہ یہ سفر مختصر ہے ہم نے اصل کی طرف وقت مکمل ہوتے ہی چلے جانا ہے۔
ہم سب کا ایمان ہے
كل نفس ذائقة الموت۔ (القرآن)
ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
وما الموت إﻻ رحلة .... غير أنها من المنزل الفاني إلى المنزل الباقي۔۔۔
موت تو محض ایک سفر ہے عارضی و فانی منزل سے دائمی و ابدی منزل کی جانب۔۔۔
مگر اس چھوٹی سی زندگی میں دوسروں کو وقت، اہمیت اور عزت بھی دینا ضروری ہے۔
![]() |
| جهاد بالقلم کی جانب سے محترمہ ضحیٰ شبیر صاحبہ کی تحریر کی اخبار میں اشاعت۔ |


0 Comments