بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
رشتے اور یہ زندگانی
ایمان فاطمہ عبد الوحید
جانتے ہیں رشتے بوجھ نہیں ہوتے مگر کبھی کبھار وہ بوجھ بن جاتے ہیں۔ جانتے ہیں کیسے؟
دیکھیں میرا مقصد منفیت اور قطع تعلقی کو پھیلانا نہیں ہے اور نہ ہی میں خود کشی کو فروغ دے رہی ہوں بلکہ میں ان غلطیوں اور ان رویوں کی نشان دہی کرنا چاہ رہی ہوں جو ایک جیتے جاگتے انسان کو خودکشی کی اور دھکیل دیتے ہیں۔
جانتے ہیں رشتے تب بوجھ لگنے لگتے ہیں جب وہ احساس سے خالی ہو جاتے ہیں۔ جب ان میں احترام باقی نہیں رہتا۔ جب دوسرے انسان کی عزتِ نفس کو اس کی خاموشی کے سبب روند دیا جاتا ہے۔ جب اس کے بارہا سمجھانے کے باوجود بھی اسے، اس کی تکلیف کو کوئی نہیں سمجھتا۔ ہاں تب ایک انسان کو، ایک کم ہمت انسان کو، خود کشی دلفریب لگنے لگتی ہے۔
یقین جانیں ہر انسان اتنا مضبوط نہیں ہوتا۔ تلخ رویے، گُھٹے گُھٹے رشتے، دم گھٹتا ماحول یہ سب انسان کو توڑ دیتا ہے۔
کیا لوگ خود کشی نہیں کرتے؟
کیا سبب ہوتا ہے خود کشی کا؟
جب اپنے ہی نہیں سمجھتے، انسان تھک جاتا ہے مگر کوئی اس کا احساس نہیں کرتا، خیال نہیں کرتا تو ایسے میں ایک عام انسان کو خودکشی کے خیالات آنے لگتے ہیں اور خود سے وابستہ رشتے اسے بوجھ لگنے لگتے ہیں۔
ایک جذباتی انسان، جو گرم جوش کا ہو اور جسے کوئی راہِ فرار نظر نہ آ رہی ہو، وہ اپنی سوچ پر عمل درآمد کر گزرتا ہے لیکن وہ انسان جو لوگوں سے ٹوٹ کر اللہ سے جڑ جاتا ہے، وہ سنبھل جاتا ہے۔ مشکلات تو انبیاء کرام کی زندگی میں بھی تھیں۔ ہمارے مسائل، ان کی مشکلات سے بڑے تو نہیں۔
رہا تعلق رشتوں کا تو خدارا اپنوں کو سمجھیں۔ ان پر ذہنی تشدد نہ کریں۔ تھوڑا ان کا بھی احساس کر لیں۔ انھیں بھی سن لیں، ذرا ان کا بھی درد، ان کی بھی پریشانی بانٹ لیں۔
وہ تمام لوگ جو خودکشی کا سوچتے ہیں، میری ان سب سے گزارش ہے کہ خدارا آپ لوگوں کی بجائے اللہ سے لو لگائیں۔ آپ لوگوں کی چاہ کیوں کرتے ہیں؟ اللہ کی کریں! اللہ کو پا لیں۔ آپ کیوں لوگوں کے تابع ہوتے ہیں؟ آپ کیوں اللہ کے سوا اوروں سے امیدیں لگاتے ہیں؟ کیوں لوگ محبت میں حد سے تجاوز کرتے ہیں؟ کیوں کسی انسان کے تابع ہو جاتے ہیں آپ؟ آپ کیوں اعتدال نہیں رکھتے رشتوں میں؟ آپ خود ہی لوگوں کے آگے بچھتے ہیں اور وہ آپ کو روند کر چلے جاتے ہیں!ایک بات یاد رکھیں! ما سوائے اللہ کی محبت کے، ہر وہ محبت جو حد سے بڑھ جاتی ہے، وہ فنا ہو جاتی ہے، زوال پذیر ہو جاتی ہے۔ اس کی چاشنی، اس کا حسن ختم ہو جاتا ہے۔
رشتوں کو قائم رکھنا ہے تو اعتدال سے کام لیں۔ میانہ روی اختیار کریں۔ آپ خوش رہیں گے اور وہ رشتے جن سے آپ خائف ہو چکے ہیں یا جو آپ کو خود کشی کی طرف راغب کرتے ہیں، ان منفی رشتوں سے بچیں۔ اللہ سے مدد طلب کریں۔ کچھ خود میں وسعت لائیں۔ تھوڑا تحمل سے کام لیں! غصے میں کوئی غلط قدم نہ اٹھائیں۔ اوروں کے رویے کی سزا خود کو، اپنے ماں باپ کو نہ دیں۔ یقین جانیں کسی کا کچھ نہیں جانا، صرف آپ کے والدین ہی رہتی زندگی تک اذیت میں مبتلا رہیں گے۔
آپ اللہ سے محبت کریں۔ اللہ سے مایوس مت ہوں اور حرام موت نہ مریں۔ مر تو ایک دن جانا ہی ہے مگر کیوں نا اللہ کے لیے ہی مرا جائے۔
سورہ الانعام کی آیت ۱۶۲ میں فرمایا گیا ہے:
تم فرماؤ، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔
زندگی انمول ہے اسے اوروں کے سبب ضائع مت کریں۔

0 Comments