ایک اچھا لکھاری کیسے بنا جائے؟ بقلم ایمان فاطمہ عبدالوحید || Eman Fatima Abdul waheed

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔

!ایک پیغام لکھاریوں کے نام

ایمان فاطمہ بنتِ عبد الوحید 

ایک اچھا لکھاری کیسے بنا جائے؟

بحیثیت لکھاری، انسان تھوڑی سی محنت کر کے، تھوڑی چھان بین کر کے کسی بھی نئے موضوع پر بہت اچھا لکھ سکتا ہے مگر اپنی ذاتی زندگی میں اگر ان اچھی باتوں کا نفاذ نہ ہو تو وہ الفاظ، وہ باتیں محض کھوکھلے دعوے ہی ثابت ہوتے ہیں اور وہ پڑھنے والے پر اثر انداز نہیں ہوتے۔

میری ذاتی رائے ہے کہ صرف وہی الفاظ قاری کو اپنے سحر میں جکڑ سکتے ہیں جو عملاً اور واقعتاً لکھاری کی زندگی کا حصہ ہوں۔ یہاں مراد یہ نہیں ہے کہ لکھاری بس وہی واقعات لکھ سکتا ہے جن کا وہ خود بھی حصہ رہا ہو۔ یہاں موضوعِ گفتگو مختلف ہے، یہاں میں یہ بتانا چاہ رہی ہوں کہ لکھاری نصیحت اور عبرت تو چاہے دوسروں کی زندگی سے پکڑے مگر اپنی ذاتی زندگی میں اس کا عمل، اس کا فعل، اس کا قول اور ظاہری رویہ ان احوال کے عین مطابق ہو۔ اس کے ظاہر اور باطن میں تضاد نہ ہو ورنہ اس کے لکھے گئے الفاظ کھوکھلے ثابت ہوں گے۔ لفظوں کا ذخیرہ، جملوں پر مہارت اور علم کی فراوانی، یہ سب کافی نہیں ہے جب تک کوئی چیز واقعی "عملی طور پر" زندگی میں شامل نہ ہو۔ 

ہمیں اس خود فریبی سے نکلنا ہو گا کہ اچھے موضوعات پر علم ہونا، ان پر عبور حاصل ہونا (کمانڈ ہونا) کافی ہے۔

نہیں! ہمیں عملاً وہ اسباق جو ہم دوسروں تک پہنچاتے ہیں، پہلے خود پر نافذ کرنا ہوں گے، اس کے بعد ہی تحاریر مؤثر ہو سکتی ہیں۔ حرف، حرف صداقت ہو سکتا ہے اور صحیح معنوں میں "جہاد بالقلم" ہو سکتا ہے۔

ورنہ بیکار ہے وہ قلم، جو راہِ حق کے لیے رواں نہ ہو، جو محض گمراہی یا وقت کے ضیاع کا سبب ہو۔

ہاں یہ سچ ہے نئی باتیں، نیا علم جب انسان کو ملتا ہے تو وہ پہلے اس سے نا آشنا ہی ہوتا ہے۔ اب جب کہ انسان اُس نے وہ علم حاصل کر لیا، نئی بات جان لی تو پہلے خود ہی اس کا عملی ترجمان بنے۔

 علم تو ایک ایسا خزانہ بنایا گیا ہے، جو بےحد وسیع ہے۔ کسی انسان کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ پورے کا پورا علم حاصل کر لے۔ میں مانتی ہوں اس بات کو، ہمیں آئے روز کچھ نا کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے اور ہمیں وہ اپنے ساتھیوں کو بھی سکھانا چاہیے۔ اپنا علم بانٹنا چاہیے مگر یہاں میرا موضوع قول و فعل میں تضاد کا پایا جانا ہے۔ اچھی باتیں دوسروں تک پہنچانا مگر خود ان پر عمل نہ کرنا، میرا موضوع ہے۔ علم ہونا مگر عمل نہ ہونا، میرا موضوع ہے۔ 

میرا مقصد لکھاریوں کو یہ باور کروانا ہے کہ ان کی تحاریر کا سب سے پہلا (practicing learner) عملی کاوش کرنے والا انھیں خود بننا ہو گا۔ 

:میں نے کہیں پڑھا تھا

اچھی باتیں اب اس لیے بھی اثر نہیں کرتیں کہ پڑھنے والے اور لکھنے والے، دونوں یہی سمجھتے ہیں کہ یہ کسی اور کے لیے ہیں۔

ہمیں اس سوچ سے نکلنا ہو گا کہ ہماری لکھی گئی تحریر اوروں کی اصلاح کے لیے ہے۔ پہلے ہمیں خود "کوشش کرنی" ہو گی۔

حاصل کلام یہ ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کی کوشش کرنی ہو گی پھر ہی دوسروں کی اصلاح کرنا ممکن ہے۔

کیا کبھی سوچا آپ نے کیوں ہر تقریر کرنے والے کے الفاظ میں تاثیر نہیں ہوتی؟ کیوں کچھ ہی لوگوں کی باتیں دل کو چھوتی ہیں؟

!وقت نکال کر ضرور سوچئے گا

کیا فرق ہوتا ہے صادق کے الفاظ میں اور کاذب کے الفاظ میں! حق گوئی کرنے والے کے الفاظ میں اور نیکی کا لبادہ اوڑھنے والے کے کھوکھلے الفاظ میں۔

الفاظ تو الفاظ ہوتے ہیں۔ وہ کون ہے جو ان میں تاثیر ڈالتا ہے؟ 

سوچئے گا کہ "کن" لوگوں کے الفاظ کو تاثیر بخشی جاتی ہے اور کیوں بخشی جاتی ہے۔

خوش رہیں، خوشیاں بانٹیں 

یغفراللہ لنا ولکُم

بارک اللہُ فیک

جزاک اللہ خیرا کثیرا 

#اللہ والے

ایک اچھا لکھاری کیسے بنا جائے؟ بقلم ایمان فاطمہ عبدالوحید || Eman Fatima Abdul waheed

Post a Comment

0 Comments