سیاہ رنگت بقلم مریم خضر

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔

سیاہ رنگت

مریم خضر

سیاہ رنگت بقلم مریم خضر

کیا کبھی آپ نے اپنی سوچ کے دریچوں میں جھانکا ہے کہ آپ کو صرف سیاہ رنگ انسانی چہرے میں ہی پسند نہیں؟ باقی دنیا جہان کی ہر چیز جو سیاہ رنگ کے لبادے میں لپٹی ہو وہ آپ کی پسندیدہ ہوتی ہے۔ ایسا کیوں؟ آپ کو سیاہ ملبوسات، سیاہ جوتے، سیاہ زیورات، سیاہ پرندے غرض ہر سیاہ چیز پسند ہے کیوں انسانی رنگت میں سیاہ رنگ کو آپ قبول نہیں کرتے؟ کیوں آپ کو سیاہ رنگ سے اس قدر بیزاری ہوتی ہے؟ کیوں سیاہ رنگ انسانی رنگت میں طنز و تشنیع کا نشانہ بنتا ہے؟ کیوں سیاہ رنگت والوں کو اتنا سہنا پڑتا ہے؟ کیوں انہیں معاشرے میں جینے میں دشواری پیش آتی ہے؟ کیوں لوگوں کی سوچ کا معیار اتنا پست ہو گیا ہے؟ کیوں لوگوں کی ذہنیت جہالت کے دور کا نقشہ پیش کرتی ہے؟ کیوں ذہن تنگ نظری کا شکار ہیں؟ کیوں آپ کی سوچ کی شفافیت ختم ہوتی جا رہی ہے؟ کیوں آپ سیاہ رنگت کا مذاق اڑاتے ہیں؟ کیوں آپ کسی کے چہرے، ناک، کان، قد، بالوں، آنکھوں اور پورے سراپے پر باتیں بناتے ہیں؟ یہ حق آپ کو کس نے فراہم کیا ہے؟ کیا آپ کو حق حاصل ہے یوں باتیں کرنے کا؟ اگر ہے تو بتائیں کس نے آپ کو یہ حق دیا ہے؟ کسی کو آپ بونا، ٹھِگنا، کالا کہہ کر مخاطب ہی کیوں کرتے ہیں؟ کیوں اپنے لفظوں پر آپ غور نہیں کرتے؟ کیوں بولنے سے پہلے آپ سو بار نہیں سوچتے؟ کیوں ایسی بات منہ سے نکالتے ہیں جو دوسروں کی دل آزاری کا باعث بنتی ہے؟ کیوں دوسروں کے احساسات کا آپ خیال نہیں رکھتے؟ کیوں ہر وقت منہ سے آگ کے شعلے ہی نکلتے رہتے ہیں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ آپ کا اور اس کا خالق ایک ہے۔ جس نے آپ کو بھی پیدا کیا ہے اور اسے بھی پیدا کیا ہے؟ کیا آپ یہ بات فراموش کر بیٹھے ہیں کہ آپ مصوری میں نہیں مصور میں نقص نکال رہے ہیں؟ مصور کون ہے؟ اللہ رب العزت کی ذات! کیا آپ کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ آپ اللہ رب العزت کی بنائی ہوئی مخلوق میں نقص نکال کر اللہ رب العزت کی ناراضگی کے مستحق ٹھہریں؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں کیا فرمایا ہے۔

ترجمہ: "قسم ہے انجیر کی! اور زیتون کی! اور طور سینین کی! اور اس امن والے شہر کی! بلاشبہ یقیناً ہم نے انسان کو سب سے اچھی بناوٹ میں پیدا کیا ہے۔"(سورۃ التین:1،2،3،4)

اللہ رب العزت نے قرآن پاک میں چار چیزوں کی قسم کھا کر کہا ہے کہ میں نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا ہے۔ پھر بھی انسان اگر انکار کرے اللہ رب العزت کی نہ مانے تو پھر وہ اللہ رب العزت کے غضب کو خود دعوت دیتا ہے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو عقل و شعور اور فہم و فراست سے نوازا ہے۔ انسان کو اللہ رب العزت نے ہاتھ سے کھانے والا بنایا ہے۔ جانور منہ سے کھاتے ہیں۔ انسان کو قد جیسی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ پھر بھی انسان ناشکرا ہے۔

کیا قرآن جھوٹ بول سکتا ہے؟ ہر گز نہیں! کیا قرآن کی اس آیت کو آپ جھٹلا سکتے ہیں؟ کیا اللہ رب العزت کے اس کلام پاک سے آپ منہ پھیر سکتے ہیں؟ یہ پڑھ کر ہی آپ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہو گے نا! تو پھر کیوں انسانی شکلوں کا مذاق بنا کر اس آیت کی نفی کرتے ہیں آپ؟ کیوں آپ اللہ رب العزت کی تخلیق پر سوال اٹھاتے ہیں؟ کبھی سوچا ہے اس نہج پر؟ انسان ہو کر آپ انسانیت کے معیار سے ہی گر گئے ہیں۔ آپ نے ظاہری شکل و صورت کو ترجیح دی، سیرت کو نہیں۔ صورت کی خوبصورتی تو چار دن کی ہے، ایک نہ ایک دن ڈھل ہی جائے گی لیکن سیرت مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ انتہائی سیاہ رنگت کے مالک تھے لیکن آپ رضی اللہ عنہ میں تقویٰ اتنا تھا، پرہیزگاری اتنی تھی کہ آپﷺ نے جنت میں اپنے آگے ان کے قدموں کی آواز سنی تھی۔ سبحان اللہ! کیا رتبہ، کیا عزت، کیا درجہ تھا حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا! یہ رتبہ انہیں ان کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں ملا تھا، ان کی خوب سیرت، ان کے تقویٰ کی وجہ سے ملا تھا۔ کیا آپ ظاہری شکل کی نسبت تقوی کو ترجیح دیتے ہیں؟ کیا آپ خوبصورتی کے اعلیٰ درجے پر ہوتے ہوئے بھی خوب سیرت سے آراستہ ہیں؟ کیا آپ میں تقوی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے؟ سوچیں گہرائی میں جا کر اور اپنا جائزہ لیں۔ کہیں لوگوں کے دل دکھانے میں آپ کا ہاتھ تو نہیں؟

Post a Comment

0 Comments