رونے سے متعلق ڈاکٹر نایاب ہاشمی کی تحریر

 بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم۔

کیا آنسو بہانا کمزوری کی علامت ہے؟

ڈاکٹر نایاب ہاشمی

رونے سے متعلق ڈاکٹر نایاب ہاشمی کی تحریر

مضبوط لوگ رویا نہیں کرتے، مرد روتے ہوئے اچھے نہیں لگتے، تم مرد ہو رونا مت، مرد کو درد نہیں ہوتا، تم کیا عورتوں کی طرح رو رہے ہو؟ عورت کمزور ہستی ہے اس لیے بات بات پر رو دیتی ہے جو عورت مضبوط ہوتی ہے وہ روتی نہیں بلکہ حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہے۔

یہ اور ایسے کئی جملے ہم عام طور پر سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔ تو کیا رونا کمزوری کی علامت ہے؟ کیا رونے سے دل کمزور ہو جاتا ہے؟ کیا جو لوگ آنسو نہیں بہاتے، اپنے آپ پر کنٹرول کر لیتے ہیں وہ مضبوط ہوتے ہیں؟ غور کیا جائے تو یہ سب باتیں قرآن مجید کی نس سے مطابقت نہیں رکھتی کیوں کہ قرآن مجید میں تو کتنی جگہ رونے اور گڑگڑا کر مانگنے کا بیان موجود ہے۔

 ترجمہ: تم اس کو پکارتے ہو تو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر تو ہم کو ان سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ (سورة الأنعام: 63)

ترجمہ: تم لوگ اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو گڑ گڑا کر بھی اور چپکے چپکے بھی واقعی اللہ تعالٰی ان لوگوں کو نا پسند کرتا ہے جو حد سے نکل جائیں۔ (سورة الأعراف: 55)

اگر رونا ایسی ہی بری چیز ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی تلقین کیوں کر رہے ہیں؟ رونا کوئی بری چیز نہیں ہے۔ آنسو بہانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔

Oxytocin رونے سے جسم میں موجود ہارمون خارج ہوتے ہیں۔

 ہیں جس سے دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ دل کو راحت ملتی ہے۔ دماغ کو سکون ملتا ہے۔ کسی غم، صدمہ، ڈر، خوف یا نقصان کے بعد انسان صحیح فیصلہ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ رو لینے کے بعد اسے سکون مل جاتا ہے پھر وہ صحیح فیصلہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ حالات کو بدلنے یا ان سے نکلنے کی راہ تلاش کرنے لگتا ہے۔ زیادہ دیر رونے سے endorphins ہارمونز جسم میں جاری ہوتے ہیں جس سے جسمانی اور جذباتی درد و تکلیف میں کمی واقع ہوتی ہے۔ انسان اپنی 70-80 سال کی زندگی میں 70 لیٹر آنسو بہا سکتا ہے۔ رونے سے آنکھیں صاف اور صحت مند رہتی ہیں۔ صرف آنکھیں ہی نہیں بلکہ جسم، روح اور دل و دماغ پر بھی مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ ٹینشن، ڈپریشن اور رنج و الم سے نکلنے میں مدد ملتی ہے۔ اگر کوئی مرد کسی تکلیف یا غم میں روئے تو اسے کمزور ہونے کا لقب نہیں دیا جا سکتا۔ یہ اس کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ عورت اگر کسی جذباتی یا جسمانی تکلیف پر زیادہ روتی ہے تو وہ کچھ دیر بعد اپنے آپ کو مضبوط محسوس کرنے لگتی ہے۔ اسی لئے وہ جسمانی و جذباتی تکالیف کے پہاڑ سر کر لیتی ہے۔ لیکن حد سے زیادہ رونے اور بین کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے کیوں کہ اس سے مایوسی، نا امیدی، ڈپریشن، خودکشی کا رجحان اور ان جیسی اور خطرناک بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اللہ نے انسان کو اعتدال میں رہنے کی تلقین کی ہے اس لئے ہمیں رونے اور ہنسنے میں بھی اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔

Post a Comment

0 Comments