ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی بقلم حرا بنت اخلاق زوجۂ امجد Hira Amjad writes

 بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی 

!السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

پچھلے دنوں سٹیٹس لگایا عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے دعا کے حوالے سے۔ کچھ میسجز موصول ہوئے جن میں پوچھا گیا تھا کہ عافیہ صدیقی کون ہے؟ کیوں پکڑی گئی؟ وغیرہ! 

مجھے محسوس ہوا کہ اس پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔

کم سے کم ہمیں مسلمان ہونے کے ناطے اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری بہن یا بیٹی کس حالت میں ہے اور اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ؟

زیادہ کچھ نہیں مگر دعا تو کر سکیں گے۔

ـ1972 میں پیدا ہونے والی یہ خاتونِ عظیم ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکہ سے پڑھائی مکمل کرنے کے بعد پاکستان آ گئیں۔ یہ نیورو سائنٹسٹ یعنی اعصابی سائنسدان ہیں۔ امریکہ نے ان کو کئی بار امریکی شہریت دینے کی کوشش کی مگر انہوں نے ہر بار انکار کر دیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امریکہ کو یہ کھٹکتی تھیں۔

 مارچ 2003 کو اپنے تین بچوں کے ہمراہ راولپنڈی جانے کے لیے ائیر پورٹ روانہ ہوئیں مگر راستے سے غائب ہو گئیں۔ اس وقت ڈاکٹر عافیہ کی عمر 30 سال تھی اور ان کا سب سے چھوٹا بیٹا سلیمان ایک ماہ کا تھا۔ (سلیمان کہاں گیا ابھی تک کچھ معلوم نہیں) بہر حال ڈاکٹر عافیہ کو امریکہ نے اپنی قید میں رکھا۔ عالمی اخباروں میں یہ خبر پھیلی کہ افغانستان میں امریکی جیل بگران میں جو قیدی نمبر 650 ہے وہ غالبا عافیہ صدیقی ہی ہیں اور بہت بری حالت میں ہے۔

 جب ہر طرف شور ہوا تو امریکہ نے اعلان کیا کہ 2008 میں عافیہ صدیقی کو افغانستان سے گرفتار کیا گیا تھا تاکہ ان پر دہشت گردی کا مقدمہ چلایا جا سکے۔ اور ان کو افغانستان سے نیویارک پہنچا دیا گیا ہے۔

امریکی فوجیوں کا کہنا تھا کہ عافیہ صدیقی نے امریکہ میں ایک ڈاک ڈبہ لیا تھا اور شبہ یہ ہے کہ وہ القاعدہ سے منسلک کسی فرد کے لیے لیا گیا تھا۔

القاعدہ ایک گروپ تھا جس کے لیڈر اسامہ بن لادن تھے۔ انہوں نے امریکیوں پر بہت خفیہ حملے کیے جس وجہ سے وہ اور ان کا گروپ دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

افغانستان میں ڈاکٹر عافیہ پر گولیاں چلائی گئیں اور کہا گیا کہ انہوں نے امریکی فوجی کی بندوق اٹھانے کی کوشش کی تھی اس لیے ان پر گولیاں چلائی گئیں۔ ڈاکٹرز نے اس وقت عافیہ صدیقی کی حالت کو موت کے قریب بتایا۔ حیرت ہے کہ فقط بندوق اٹھانے کی کوشش پر کون سا قانون یہ اجازت دیتا ہے کہ ملزم پر گولیاں چلا دی جائیں۔

 مختصرا بتاؤں تو عافیہ صدیقی پر انتہائی کمزور سا (جھوٹا) مقدمہ بنا کر انہیں 86 سال کی سزا سنا دی گئی۔ اغوا کے وقت ان کی عمر 30 سال تھی اور اب قریبا 52 سال ہے۔ وہ مسلسل امریکی فوجیوں کے ظلم کا نشانہ بن رہی ہیں۔ وجہ صرف ان کی ذہانت تھی اور یہ کہ وہ اپنی ذہانت کا فائدہ مسلمانوں کو دینا چاہتی تھیں اور امریکہ کی غلامی قبول کرنے کو تیار نہ تھیں۔

 فوزیہ صدیقی اس عرصے میں اپنی بہن سے صرف دو بار ملی ہیں۔ اور انہوں نے بتایا کہ وہ وہاں بہت بری حالت میں ہے۔ ڈاکٹر عافیہ نے بتایا کہ ان کے سامنے قرآن پاک زمین پر رکھا جاتا ہے اور انہیں اس پر سے گزرنے کو کہا جاتا ہے اور جب وہ ایسا کرنے سے انکار کرتی ہیں تو انہیں زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں روز غیر انسانی طریقوں سے ظلم کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔

 سچی افواہیں یہ ہیں کہ عافیہ صدیقی کو پاکستانی حکومت (مشرف دور) نے ڈالرز کے عوض بیچا تھا۔

 ـ2010 میں ایک قیدی نے ان پر حملہ کیا جس وجہ سے وہ دو دن بےہوش رہیں  اور انہیں طبی امداد نہ دی گئی۔ 

وکیل کی کاوشوں کی وجہ سے انہیں دو دن بعد طبی امداد دی گئی۔ 

ہم ان کے لیے زیادہ نہیں تو دعا تو کر ہی سکتے ہیں کہ اللہ پاک انہیں جلد از جلد اس زندان سے نکالے جہاں ان کے ساتھ روز غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ 

جزاک اللہ خیرا کثیرا 

بقلم حرا بنت اخلاق زوجۂ امجد

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی بقلم حرا بنت اخلاق زوجۂ امجد Hira Amjad writes


Post a Comment

0 Comments