سچی کہانی بقلم اقصیٰ اشفاق

 بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم۔

سچی کہانی 

اقصیٰ اشفاق 

سچی کہانی بقلم اقصیٰ اشفاق


یہ ایک ایسی لڑکی کی سچی کہانی ہے جو سر سے پاؤں تک گناہوں میں ڈوبی ہوئی تھی، جسے اللہ نے ایک موقع دیا اور اس نے اس موقع کو ضائع نہیں کیا بلکہ اپنی زندگی کو اپنے رب کے احکامات کے مطابق گزارنا شروع کر دیا۔

میرے بابا کا تعلق آسٹریلیا سے جب کہ میری ماں کا تعلق عرب سے تھا دونوں کی پسند کی شادی تھی اور دونوں ہی مذہبی طور پر مسلمان تھے شادی کے بعد دونوں آسٹریلیا شفٹ ہوگئے، شادی کے ایک سال بعد میری پیدائش ہوئی، جس کے بعد میرے والدین میں نہ ختم ہونے والے جھگڑے شروع ہو گئے آخر کار نوبت طلاق تک آ پہنچی اور طلاق کے بعد میری ماں نے بھی کہیں اور شادی کرلی اور بابا نے بھی، دونوں ہی مجھے رکھنے کو تیار نہ تھے بالآخر آسٹریلیا کی گورنمنٹ نے مجھے وہاں کے ایک یتیم خانے میں منتقل کر دیا میرے آگے پیچھے کسی کے نہ ہونے اور تعلیم و تربیت کی کمی کی وجہ سے میں بہت بگڑ چکی تھی چونکہ میرے والدین مسلمان تھے تو میں بھی صرف اتنا ہی جانتی تھی کہ میں مسلمان ہوں، مسلمان کیسا ہوتا ہے اس کی تعریف تک کا علم نہیں تھا مجھے، 18 سال بعد یتیم خانے کو خیر آباد کہہ کر اب مجھے اپنا خرچہ خود اٹھانا تھا میں نے کئی جگہوں پر کام کیا، پارٹ ٹائم جاب کرتی اور اپنے اخراجات اٹھاتی ایک دن جس بوتیک میں، میں کام کرتی تھی وہاں ایک ماڈلنگ کے آڈیشن کا اشتہار دیکھا اور قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اگلے دن اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ میں لوکیشن پر پہنچ گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خوبصورتی جیسی نعمت سے نوازا تھا اور کسی چیز کی میرے اندر کمی بھی نہیں تھی اس لیے باآسانی منتخب بھی ہو گئی اس کے بعد میں نے کئی چھوٹی چھوٹی جگہوں پر ایک ماڈل کے طور پر کام کیا ایک سال بعد مجھے بڑی کمپنیوں کی طرف سے آفر آنا شروع ہوگئی اور میں دو سال میں ایک مشہور اور مہنگی ماڈلز میں سے ایک بن گئی، اب میرے پاس دنیا کی ہر شے موجود تھی پیسہ بے دریغ تھا سمجھ نہیں آتا تھا کہ کہاں خرچ کروں ساری ساری رات غیر مردوں کے ساتھ پارٹیوں میں شریک رہتی تھی یہاں تک کہ زنا جیسا گناہ بھی کر چکی تھی جہاں تک ہو سکا میں نے بڑے سے بڑا گناہ کیا پھر سوئٹزرلینڈ کی ایک مشہور فیشن کمپنی کی طرف سے مجھے ماڈلنگ کی آفر ہوئی اور میں چلی گئی وہاں میری ایک دوست قیام پذیر تھی کام سے فارغ ہو کر میں اس کی طرف چلی گئی، وہ میرے لیے کافی بنانے کے لیے کچن میں گئی اور میں لاؤنج میں بیٹھ گئی، جہاں ٹی وی چل رہا تھا اور اس پر مولانا صاحب کا حیا پر بیان چل رہا تھا جیسے جیسے وہ الفاظ میرے کانوں میں پڑ رہے تھے میرا جسم اور دماغ شل ہوتا جا رہا تھا جیسے سوچنے سمجھنے کی صلاحتیں ختم ہو رہی ہوں۔ الغرض یہ کہ میری روح میرا جسم چھوڑ رہی ہو مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ سب مجھے کہا جا رہا ہے مجھے تنبیہہ کیا جارہا ہے انہوں نے یہ آیت پڑھی.

"اے نبی ﷺ! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادریں اوڑھ کر اس کا کچھ حصہ نیچے لٹکا لیا کریں یہ طریقہ ان کی پہچان کے لیے زیادہ مناسب ہے، ایسے وہ ستائی نہ جائیں گی اور اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ ( سورۃ الاحزاب، 59) 

میرا جسم میری مرضی ذرا غور کرو مسلمان بچیوں تم ایسا کہتی ہو نا! کیا یہ اس آیت کا انکار نہیں؟

میں پورے کپڑے کیوں پہنوں؟؟ مسئلہ کپڑوں کا نہیں سوچ کا ہے کیا یہ اس آیت کا انکار نہیں؟

زینت دکھانا میرا حق ہے مجھے خوب صورتی دی کیوں ہے؟ چھپانے کے لیے نہیں دکھانے کے لیے دی ہے، کیا یہ اس آیت کا انکار نہیں؟

اور اللہ کی آیات سے انکار کا مطلب کیا رب سے بغاوت نہیں؟

ابھی اتنا ہی سنا تھا کہ مزید میری ہمت جواب دینے لگی میں فوراً وہاں سے اٹھی اور نکل گئی گھر آ کر حالت بہت عجیب تھی مجھے پہلی بار یہ احساس ہوا کے جس راستے پر میں ہوں وہ غلط ہے اپنے ضمیر کی آواز کو پہلی بار میں نے سنا اور محسوس کیا۔ یوں ہی روتے روتے میری آنکھ لگ گئی اگلے دن میں نے کافی تحقیق کی اور ایک مذہبی عالم سے رابطہ کیا ان کو اپنی گزشتہ زندگی کے بارے میں بتایا اور پوچھا کہ میں کیسے توبہ کروں کیا میری توبہ قبول ہوگی؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں اگر آپ توبہ کی تمام شرائط پوری کریں گی اور سچے دل سے توبہ کریں گی تو اللہ نہ صرف آپ کو معاف کر دے گا بلکہ آپ کے پچھلے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دے گا۔

میرے دل کو بہت سکون ملا یہ جان کر اور اپنے رب پر بہت پیار آیا کہ کوئی اتنا سخی، اتنا کریم کیسے ہو سکتا ہے پھر کچھ دن میں توبہ کا سوچتی رہی کہ کیسے کروں کیونکہ مجھے دین کا کچھ بھی نہیں پتا تھا میں نے دوبارہ ان ہی عالم سے رابطہ کیا اور نماز کا طریقہ اور نماز سیکھی، یاد کی اور توبہ کی، اس وقت میری حالت ایسی تھی جیسے پگھلتا ہوا سونا۔ میرا دل ایسے ہی سختی سے نرمی کی طرف آرہا تھا، رب کی رحمت پر رشک آتا تھا تو رو پڑی اور اتنا روئی کہ آنکھیں اس حد تک سوج گئیں کہ کھل نہیں رہی تھیں مگر پھر بھی آنسو نہیں تھم رہے تھے آخر کچھ دنوں بعد میں نے اپنے ماڈلنگ کے کیریئر کو خیر آباد کہہ دیا اور اپنی ساری زندگی دین کی خدمت میں گزارنے کا فیصلہ کر لیا اب میں نے قرآن سیکھنا شروع کیا کیونکہ میں نے پڑھنا تو دور کبھی دیکھا بھی نہیں تھا کہ ہوتا کیسا ہے یوں ہی دن گزرتے گئے مجھے سکون اور اطمینان ملتا گیا میں خوش تھی بہت خوش مجھے اندازہ ہوا تھا کہ دولت سے نہیں بلکہ صرف دلی سکون اور اللہ کے ساتھ سے انسان خوش رہ سکتا ہے ابھی اس سفر کے آغاز کو 18 دن ہوئے تھے کہ میرے سر میں شدید درد اٹھا میں ڈاکٹر کو چیک کروانے گئی تو پتا چلا کہ مجھے برین کینسر ہے اور بیس فیصد امید ہے کہ میں بچ جاؤں، 80 فیصد موت کج امید ہے، اس دن مجھے احساس ہوا کے زندگی میں "موقع" کی کتنی اہمیت ہے میں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا کہ اس بیماری کا پتا چلنے سے پہلے ہی اس نے مجھے بدل دیا بھلے ہی کتنی تکلیف تھی مجھے مگر اطمینان اس سے زیادہ تھا کہ میرے رب نے مجھے موقع دیا اور توفیق دی میں نے حجاب لینا شروع کردیا اس نے مجھے حیا دی میری تاریکیوں کو اجالا بخشا میرے رب نے۔

اور برین کینسر کے کچھ دنوں بعد اس خاتون کی وفات ہوگئی۔

سب سے بڑا سبق جو یہاں سے ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے دیا جانے والا ایک بھی موقع ضائع مت کریں آج ہم اپنی دنیاوی زندگی میں اتنے مصروف ہوچکے ہیں کہ اگر محاسبہ کریں تو دن میں کئی مواقع ملتے ہیں نیکی کے مگر ہمارے اوپر اپنی ذاتی مصروفیات اتنی غالب ہوتی ہیں کہ ہم غور نہیں کرتے۔ 

آخر میں یہی دعا کروں گی کہ اللہ ہماری دنیا کو ہمارے لیے آخرت کا مسئلہ نہ بنائے، ہمارے دل میں اپنا اتنا خوف پیدا کر دیں کہ ہم گناہوں سے بچیں اور نیکی کی طرف مائل ہوں اللہ ہمارے دل میں اپنی اتنی محبت ڈال دیں کہ دنیا بھلے ناراض ہو جائے مگر اللہ نہیں۔

آمین ثم آمین

Post a Comment

2 Comments

  1. اللہ آپ کے قلم سے لوگوں تک حق بات
    پہنچائے... آمین ثم آمین ❤️
    بہت اچھا لکھا آپ نے ماشاءاللہ ❤️

    ReplyDelete